Tuesday, March 1, 2016

علمائے دیوبند کا تاریخی پس منظر حصہ اول

ظاہری اور باطنی علوم کا سنگم:
جس طرح ہمارا روحانی رشتہ سینہ بہ سینہ نبی علیہ الصلٰوۃ والسلام تک پہنچتا ہے اور شجرہ کہلاتا ہے اسی طرح ہمارا علمی تسلسل بھی ہے جو اکابرین علمائے دیوبند سے ہوتا ہوا نبی علیہ الصلٰوۃ والسلام تک پہنچتا ہے۔ہمارے اکابرین علمائے دیوبند علمی اور روحانی دونوں نسبتوں کے حامل کامل تھے۔جب درس حدیث دینے بیٹھتے تو عسقلانی اور قسطلانی نظر آرہے ہوتے تھے اور جب کبھی مسند ارشاد پر بیٹھتے تھے تو جنید اور بایزید نظر آتے تھے۔اللہ رب العزت نے ان کو دونوں علوم سے نوازا تھا۔وہ حقیقت میں "مرج البحرین"تھے۔وہ ظاہری علوم اورباطنی علوم کا سنگم تھے۔ان کی قربانیوں کی وجہ سے انگریز کے دور میں بھی دین محفوظ رہا ہے۔اسی بنا پر ہم آج اس دین پر عمل کرنے کے قابل ہیں۔
علمی ورثہ کی حفاظت:
دنیا کے دوسرے ممالک کو دیکھئے البانیہ ، بوسنیا ا ور کوسووا جہاں پر غیر مسلموں نے غلبہ کیا وہاں مسلمانوں کی زندگیوں میں سے علم بالکل ختم ہوگیا تھا۔حتٰی کہ وہاں لوگوں کو کلمہ پڑھنا بھی نہیں آتا تھا۔جب کہ اس برصغیر میں انگریز کی دوسو سال کی حکومت بھی ہم  سے علمی ورثہ نہ چھین سکی۔یہ دین والی نعمت باقی رہی اور الحمد للہ آج ہم اس دین کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔
فرنگی تہذیب کے خلاف کاروائیاں:
یہ حفاظت بھلا کیسے ہوئی؟اس کے پیچھے لاکھوں علماء کی قربانیاں موجود ہیں۔کچھ عشاق تو وہ تھے جو جان کے نذرانے پیش کر گئے اور کچھ وہ تھے کہ جنہوں نے فرنگی تہذیب کے خلاف زندگی گزار کر یا پابند سلاسل ہو کر مشکلات میں زندگی گزاری مگر دین کو اپنے سینے سے لگائے رکھا۔چٹائیوں پر بیٹھنے والے ان حضرات نے اپنے لئے بھی غربت برداشت کی اور اپنی اولاد کے لئے بھی مگر دین کی حفاظت کر گئے۔ہر طالب علم کو اپنے اسلاف کی اس تاریخ کا علم ہونا ضروری ہے۔علماء حضرات تو پہلے ہی جانتے ہیں تاہم اپنا سبق یاد کرنے کی خاطر یہ عاجز آج اپنے ان اسلاف کی باتیں عرض کرے گا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد:
1601ء میں انگریز کا ایک قافلہ واسکوڈے گاما کی سربراہی میں بمبئی کے ساحل پر اترا اور اس نے مغل بادشاہوں سے کہا کہ ہم  یہاں پر تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ان کی مادی ترقی نے وقت کے حکمرانوں کو بڑا متاثر کیا۔چنانچہ انہوں نے دل کھول کر ان کو خوش آمدید کہا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پر ایک فرم بنی جس کے دفاتر مختلف علاقوں میں کھولے گئے۔100 سال کے عرصے میں اس کی تجارت اتنی چمکی کہ اکثر و بیشتر تجارتی معاملات ا س کی مٹھی میں آگئے۔
انتظامی امور و مداخلت:
جب انگریز نے دیکھا کہ تجارت پر اس نے قابو پالیا ہے تو اس نے انتظامی امور میں بھی دخل شروع کر دیا۔چنانچہ 1701ء تک ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے پرچم لہرا رہے تھے۔انگریز چھوٹے چھوٹے علاقوں کا نظام اپنے ہاتھوں میں لے رہے تھے۔ظاہر میں تجارت تھی لیکن اندر نیت یہ تھی کہ ہمیں بالآخر اس ملک پر قابض ہونا ہے۔فرنگی ان کاموں کو اتنی چالاکی ، عیاری اور ہوشیاری سے کر رہا تھا کہ وقت کے حکمرانوں نے اس کا ادراک نہ کیا۔1740 ء تک انگریز چار مختلف صوبوں کا گورنر بن چکا تھا۔قدرت کے کچھ فیصلے ہوتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت:
ایک طرف فرنگی کوششیں اتنی زیادہ ہورہی تھیں تو رب کریم نے دوسری طرف ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک بندے کو پیدا کیا۔چنانچہ دہلی کے ایک بزرگ عالم شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں ایک بیٹا ہوا۔جن کا نام انہوں نے ولی اللہ رکھا۔انگریز وں کے اس ملک میں آنے کے پورے ایک سو سال بعد  1703ء میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ہوئی۔
اکتساب علم:
جب اپنی جوانی کی عمر کو پہنچے تو مقامی علماء سے جو علم حاصل کرنا تھا کر کے مدینہ تشریف لے گئے اور انہوں نے وہاں شیخ ابو طاہر مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے علم حاٖصل کیا۔شاہ ولی اللہ وہ عالم دین ہیں جہنوں نے سب سے پہلے قرآن مجید  کا فارسی ترجمہ کیا۔جن کی کتابیں "حجۃ اللہ البالغہ ، تفہیمات الٰہیہ ، فیوض الحرمین ، اکثر علماء کی نظروں سے گزری ہوں گی۔انہوں  نے حرمین شریفین سے واپس ہندوستان آکر باقاعدہ دین کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔
شاہ ولی اللہ  رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے:
اللہ رب العزت نے انہیں فرزند ارجمند عطا کئے۔شاہ عبدالعزیز ؒ ، شاہ عبدالقادرؒ اور شاہ عبدالغنیؒ اور شاہ رفیع الدینؒ یہ سب آفتاب و ماہتاب تھے۔"ایں خانہ ہمہ آفتاب است" کے مصداق تھے۔شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر نے اردو زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ کیا۔1762 ء میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کی وفات ہوئی۔
انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ:
اس کے بعد ان کے بڑے فرزند شاہ عبدالعزیز ؒ ان کی مسند پر بیٹھے۔شاہ عبدالعزیز ؒ کو اللہ رب العزت نے فراست مومنانہ عطا کی تھی۔اِتَّقُوْا فَرَاسَۃُالْمُؤْمِنِ فَاِنَّہُ یَنْظُرُ بِنُوْرِاللہِ۔انہوں نے محسوس کر لیا کہ فرنگیوں کے ارادے خطرناک ہیں۔یہ ہم سے فقط ہماری دنیا ہی نہیں لینا چاہتے بلکہ ہمارا دین بھی چھیننا چاہتے ہیں۔چنانچہ 1772ء میں شاہ عبد العزیز ؒ نے فرنگیوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے دیا کہ ان کو ملک سے نکالو اور آزادی حاصل کرو کیوں کہ یہ مسلمانوں کے اوپر فرض ہو چکا ہے۔
فتویٰ کا نتیجہ:
چنانچہ 1772ء کے اس فتوے کے بعد جتنی بھی آزادی کی تحریکیں چلیں وہ دراصل اس فتویٰ کا نتیجہ تھا۔تحریک ریشمی رومال، جنگ آزادی ، تحریک ترک موالات اور تحریک بالاکوٹ یا اس طرح کی جتنی بھی کوششیں تھیں وہ سب کی سب شاہ عبد العزیز ؒ کے فتویٰ کا نتیجہ تھیں۔مسلمانوں کے اندر ایک شعور پیدا ہونا شروع ہوگیا کہ فرنگی لوگ فقط اپنی تجارت ہی نہیں چمکا نا چاہتے بلکہ اپنی تہذیب کو بھی یہاں پر ٹھونس کر اپنا طرز زندگی بھی دینا چاہتے ہیں۔اس شعور کے پیدا ہونے کے بعد دوسرے علمائے کرام نے بھی اس حقیقت کو محسوس کیا کہ ہمیں فرنگی سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔
معرکئہ سرنگا پٹم:
چنانچہ 1792ء میں سرنگا پٹم میں حیدر علی کے بیٹے سلطان ٹیپو نے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی۔یہ دل میں دین کا درد رکھنے والا بندہ تھا۔وہ اپنے کئی فوجیوں کو لے کر انگریز کے ساتھ نبرد آزما ہوا مگر اس کی فوج کے اندر ایک منافق بھی تھا جس کا نام میر صادق تھا۔انگریزوں نے میر صادق کو 900 مربع زمین دینے کا وعدہ کیا۔چنانچہ میر صادق کی منافقت کی وجہ سے سلطان ٹیپو کو شہادت نصیب ہوئی اور مسلمانوں کو فتح نصیب نہ ہو سکی۔
جنگ پلاسی:
جب انگریزوں نے میسور پر قبضہ کر لیا تو وہ بڑے مطمئن ہوئے کہ چلو مسئلہ حل ہوگیا۔مگر اس کے بعد نوب سراج الدولہ نے انگریزوں کے ساتھ پلاسی کی جنگ لڑی۔اس کی فوج میں بھی ایک منافق تھا جس کا نام میر جعفر تھا۔اس کو انگریز نے حسب عادت مال و دولت کا لالچ دیا تو اس نے سارے راز ان کو بتلادیئے۔چنانچہ 22 گھنٹے کے اند یہ جنگ پلاسی بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچی اور انگریز اس میں بھی غالب رہا۔
رنجیت سنگھ کی تعیناتی:
جب انگریز نے میسور اور پلاسی کی یہ جنگیں جیت لیں تو اس نے سوچنا شروع کر دیا کہ یہ تحریکیں کیوں کھڑی ہو رہی ہیں۔ان کا کچھ پکا بندوبست کرنا چاہیئے تاکہ آئندہ ہمارے خلاف کوئی تحریک کھڑی ہی نہ ہو سکے۔چنانچہ اس نے مسلمانوں کے اوپر اپنا شکنجہ کسنا شروع کر دیا۔لیکن اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ اگر میں مسلمانوں پر بلاواسطہ مظالم ڈھاؤں گا تو وہ انگریزوں کے اور زیادہ مخالف بن جائیں گے۔چنانچہ 1824ء میں اس نے رنجیت سنگھ کو پنجاب کا گورنر بنا دیا۔
رنجیت سنگھ کے مظالم:
رنجیت سنگھ نے انگریز کے اشارے پر مسلمانوں کا وہ برا حشر کیا کہ جس کوپڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔علماء کو قتل کیا، مسلمانوں کی عورتوں کو بے آبرو کیا، ان کی جائیدادیں اور املاک کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔جس طرح سے بھی وہ مسلمانوں کو پریشان کر سکتا تھا اس نے کرنے میں کوئی کمی نہ کی۔2 سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
سید احمد شہید ؒ کا جہاد:
بالآخر دل میں دین کا درد رکھنے والے ایک بزرگ سید احمد شہید ؒ نے دیکھا کہ اب کسی نہ کسی کو قربانی دینا ہوگی تاکہ مسلمانوں کو ان مصیبتوں سے نجات مل سکے۔لہذا وہ اور ان کے شاگرد اسماعیل شہیدؒ جن کے ساتھ تقریباً 900 کے قریب مجاہدین اور 100000 مریدین تھے۔انہوں نے انگریز کے خلاف قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور درۂ خیبر کے راستے پشاور کے اندر داخل ہوئے۔پہلے حملے میں سید احمد شہید ؒ نے پشاور کو فتح کر لیا۔
شاہ اسماعیل شہیدؒ کا جہاد
اس کے بعد شاہ اسماعیل شہیدؒ نے پشاور کے چوک میں کھڑے ہو کر شریعت کے نٖفاز کا  اعلان کیا، شراب کی بندش کا اعلان کیا، یہ یکم مئی اتوار کا دن تھا۔عجیب بات یہ ہے کہ 1972ء میں حضرت مفتی محمود ؒ جو انہی کے روحانی فرزند تھے جب اللہ رب العزت نے ان کو وہاں کا چیف منسٹر بنایا تو انہوں نے بھی پشاور کی اسی جگہ پر شراب کی بندش کا اعلان کیا وہ بھی یکم مئی اتوار کا دن تھا۔پشاور پر فتح حاصل کرنے کے بعد سید احمد شہید ؒ کا یہ قافلہ آگے بڑھا شنکیاری اور اکوڑہ خٹک کو فتح کرتے ہوئے بالاکوٹ کی طرف بڑھا۔
سید احمد شہید ؒ کا دو ٹوک جواب:
پنجاب کے گورنر رنجیت سنگھ نے پیغام بھیجا کہ اٹک سے ادھر کا علاقہ تم سنبھالو اور ادھر کا علاقہ ہم سنبھالتے ہیں۔سید احمد شہید ؒ نے فرمایا کہ مجھے زمین کی ضرورت نہیں بلکہ لوگوں کے دین کی ضرورت ہے۔میں تو دین کی حفاظت کے لئے یہ قدم اٹھا چکا ہوں۔میں اپنے قدم بڑھاؤں گا یا تو مجھے فتح نصیب ہوگی یا پھر مجھے شہادت نصیب ہوگی۔
دو جرنیلوں کی شہادت:
چنانچہ انگریز کی ایماء پر رنجیت سنگھ نے اپنی فوج لے کر وہاں مقابلے کے لئے آگیا۔بالاکوٹ کے قریب سید احمد شہید ؒ نے پڑاؤ ڈالا ہوا تھا۔انگریز نے مقامی دیہاتیوں کو لالچ دے کر ان سے معلومات حاصل کیں اور تہجد کی نماز پڑھتے ہوئے سید احمد شہید ؒ کو شہید کر دیا۔5 مئی کو سید احمد شہید ؒ کی شہادت ہوئی تو شاہ اسماعیل شہید ؒ نے پھر انگریز سے جنگ کرنی شروع کردی۔چار دن یہ معرکہ ہوتا رہا۔حتیٰ کہ 9 مئی کو شاہ اسماعیل شہید ؒ بھی شہید کر دئے گئے۔یہ وہ حضرات ہیں جن کی قبور آج بھی بالاکوٹ میں موجود ہیں۔
شاہ اسماعیل ؒ کی کرامت:
تاریخ میں ایک عجیب واقعہ لکھا ہوا ہے کہ جب شاہ اسماعیل شہیدؒ چاروں طرف سے گھیر لئے گئے تو ایک سکھ نے نبی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شان میں گستاخی کے الفاظ کہے اور دوسرے نے ان کے اوپر تلوار تان لی۔شاہ اسماعیل شہید ؒ کے دل میں عشق رسالت کی ایسی کیفیت تھی کہ آپ ان نازیبا الفاظ کو سن کر تڑپ اٹھے اور آپ نے قسم کھائی کہ میں اس وقت تک نہیں مروں گا جب تک کہ میں تیرا کام تمام نہیں کر لوں گا۔یہ کہہ کر آپ نے اس کے اوپر خنجر لہرایا مگر دوسرے سکھ نے آپ پر تلوار کا وار کیاآپ کا سر آپ کے تن سے جدا ہو کر گر گیا۔عجیب بات ہے کہ بدن چوں کہ حرکت میں آچکا تھا اور ہاتھ میں خنجر تھا لہذا بدن بغیر سر کے اس کے پیچھے بھاگتا رہا۔جب سکھ نے دیکھا کہ بغیر سر کے یہ بدن میری برف بھاگ رہا ہے تو وہ ڈر کے مارے پیچھے گرا۔آپ اس کے اوپر گرے اور آپ کا خنجر اس کے سینے میں پیوست ہوگیا۔اس طرح آپ کی قسم اللہ رب العزت نے پوری فرما دی۔حدیث پاک میں آتا ہے کہ اللہ کے کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ رب العزت کے ہاں ان کا وہ مقام ہوتا ہے کہ جب وہ قسم کھا لیا کرتے ہیں تو اللہ رب العزت ان کی قسم کو پورا کردیاکرتےہیں۔لواقسم علی اللہ لابرہ۔
انگریز کے خلاف علمائے دیوبند کا مشورہ:
جب انگریز اس میدان میں بھی غالب آگیا تو بقیہ علماء نے 1856ء میں آپس میں مشورہ کیا کہ انگریز کے خلاف ہمیں کوئی اور قدم اٹھانا چاہیے۔چنانچہ اس میں مولانا جعفر تھانیسری ، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، حضرت رشید احمد گنگوہی ،مولانا قاسم نانوتوی رحمۃاللہ علیہم اجمعین وغیرہم حضرات موجودتھے۔مشورے میں یہ بات آئی کہ ہماری افرادی قوت بہت کم ہے، ہم انگریز کے خلاف کیسے لڑسکتے ہیں۔اس موقع پر حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ نے کھڑے ہو کر کہا کہ کیا ہماری تعداد غازیان بدر سے بھی تھوڑی ہے؟آپ کے ان الفاظ سے دوسرے علماء کے اندر بھی شہادت کا جذبہ جاگ اٹھا چونکہ کہ 313 کی تعداد سے تو زیادہ تھے چنانچہ فیصلہ ہوا کہ جو مرضی ہو ہمیں انگریز کے خلاف جہاد کرنا ہے۔
جنگ آزادی:
سال بھر اس مشورہ پر عمل درآمد کی تیاری ہوتی رہی۔چنانچہ 1857ء میں جنگ آزادی لڑی گئی، اس کے دو محاذ بنائے گئے ایک محاذ انبالہ میں جس کے قائد مولانا جعفر تھانیسری تھے اور دوسرا محاذ شاملی میں جس کے سپہ سالار حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ تھے۔مقابلہ ہوا، حافظ ضامن ؒ کو شہادت بھی ملی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کو زخم بھی آئے چوں کہ انگریز تعداد میں بہت زیادہ تھا اس لئے انگریز کا پلہ بھاری رہا اور علماء کو پھر بھی فتح نصیب نہ ہو سکی۔
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میر
مقابلہ  تو    دل    ناتواں    نے    خوب   کیا
جب یہ مختلف واقعات پیش آئے تو وائسرائے سے برطانیہ کے حکمران نے یہ پوچھا کہ آخر کیا بات ہے کچھ دنوں کے بعد کوئی نہ کوئی تحریک شروع ہوجاتی ہے۔مجھے اس کی وجوہات بتاؤ تاکہ اس کو ہمیشہ کے لئے ختم کیا جا سکے۔چنانچہ انہوں نے برطانیہ سے اپنے مبصرین اور تجزیہ نگار بلائے جنہوں نے آکر حالات کا جائزہ لیا اور کہا کہ اس وقت تک تحریکیں اٹھتی رہیں گی جب تک ان تین چیزوں کو ختم نہ کر دیا جائے۔
٭سب سے پہلے قرآن مجید کو ختم کرنا چاہئے۔
٭علمائے کرام کو ختم کرنا چاہئے۔
٭جذبۂ جہاد کو ختم کرنا چاہئے۔
یہ تین باتیں لب لباب تھیں۔
علمائے کرام کا قتل:
چنانچہ انگریز نے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا تین سال کے اندر قرآن پاک کے تین لاکھ نسخے نذر آتش کر دئے اور 14000 علمائے کرام کو پھانسی دی گئی۔
تھامسن اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ دہلی سے لے کر پشاور تک جرنیلی سڑک کے دونوں طرف کوئی بڑا درخت ایسا نہیں تھا جس پر کسی عالم کی لاش لٹکتی نظر نہ آرہی ہو۔بادشاہی مسجد میں پھانسی کا پھندہ لٹکایا گیا اور دیگر مسجدوں کے اندر علمائے کرام کو پھانسی دی گئی۔
تھامسن اپنی یاداشت میں لکھتا ہے کہ میں دہلی گیا تو کیمپ میں ٹھہرا ہوا تھا۔مجھے وہاں انسانی گوشت کے جلنے کی بدبو محسوس ہوئی۔میں پریشان ہو کر اٹھا کہ یہ کیا معاملہ ہے جب کیمپ کے پیچھے جا کر دیکھا تو کچھ انگریزوں نے انگارے جلائے ہوئے تھے اور چالیس علماء کو بے لباس کر کے ان انگاروں کے پاس کھڑا کیا ہوا تھا اور انہیں یہ کہا جارہا تھا کہ تم ہمیشہ کے لئے ہمارا ساتھ دینے کا وعدہ کرو نہیں تو تمہیں انگاروں پر لٹا دیں گے۔انہوں نے انکار کیا تو چالیس علماء کو انگاروں پر لٹا دیا گیا۔یہ ان کے گوشت جلنے کی بدبو تھی۔جو خیموں میں بھی محسوس ہورہی تھی۔وہ کہتا ہے کہ اسی طرح چالیس علماء شہید ہوگئے تو پھر چالیس اور علماء کو بھی اسی طرح اوپر لٹایا گیا۔
مولانا احمد اللہ گجراتی کا جواب
مولانا احمد اللہ گجراتی ؒ بڑے عالم تھے۔ایک انگریز نے ان سے کچھ عربی سیکھی تھی وہ انگریز اس وقت ان لوگوں میں سے تھا جو مسلمان علماء کو پھانسی دے رہے تھے۔اس نے مولانا احمد اللہ گجراتی ؒ سے کہا کہ آپ میرے استاد ہیں، آپ صرف زبان سے کہہ دیں کہ میں اس تحریک آزادی میں شریک نہ تھا میں آپ کا نام پھانسی دینے والوں میں سے نکال دوں گا۔احمد اللہ گجراتی ؒ نے جواب دیا کہ میں یہ بات کرکے اللہ رب العزت کے دفتر سے نام نکلوانا نہیں چاہتا۔سبحان اللہ
تو ان حضرات نے اپنی جان کے نذرانے تو پیش کر دئے مگر انگریز کا ساتھ دینے پر تیا ر نہ ہوئے۔
ظلم کی انتہا:
مولانا تھانیسری ؒ اپنی کتاب "تاریخ کالاپانی"میں لکھتے ہیں کہ ہم کئی علماء تھے جن کو گرفتارکرکے امرتسر جیل میں رکھا گیا پھر فیصلہ کیا گیا کہ ان کو لاہور بھیج دیا جائے۔جب لاہور بھیج دیا گیا تو یہاں کے حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ ان کو سزا دی جائے تاکہ ان کی وجہ سے دوسروں کو بھی عبرت حاصل ہو۔وہاں کا انگریز حکمران اتنا ظالم تھا کہ اس نے لوہے کے پنجرے بنوائے جن کے چاروں طرف اس نے لوہے کی کیلیں لگوائیں اور اس کے اندر جگہ اتنی تھوڑی تھی اس میں ایک آدمی فقط بیٹھ سکتا تھا۔جب آدمی اندر بیٹھتا تو اس کی چاروں طرف کیلیں ہوتیں۔علمائے کرام کو ان پنجروں کے اندر بند کرکے ریل کے ڈبے میں ان پنجروں کو رکھ دیا گیا۔اس طرح ان کو لاہور سے ملتان پہنچایا گیا۔فرماتے ہیں کہ ریل کے ڈبے کو جھٹکے لگتے تو ہم کبھی ادھر گرتے کبھی اُدھر گرتے تو ہمارے کبھی اس طرف کیلیں چبھتیں اور کبھی اُس طرف۔جسم کے چاروں طرف کیلوں کی وجہ سے زخم بن گئے جن سے خون جاری رہتا۔
تین مہینے کے اندر ہمیں لاہور سے ملتان پہنچایا گیا۔کئی کئی ہفتے یہ بوگیاں کھڑی رہتیں اور ہماری پروا ہی نہ کی جاتی ہم گرمی میں پسینے کی وجہ سے پریشان ہوتے۔کبھی گرمی میں پیاس کی شدت کی وجہ سے تڑپتے اور کبھی اپنے زخموں کی وجہ سے پریشان ہوتے۔لگانے کے لئے مرہم بھی کوئی نہیں ہوتا تھا۔اور ہمیں اتنی تکلیف میں رکھا گیا کہ ہم اس کی حقیقت الفاظ میں بیان ہی نہیں کر سکتے۔
تین مہینے ان کیلوں والے پنجروں میں رہ کر آخر ہم ملتان پہنچے وہاں ہمیں انگریز نے نکالا اور بتا دیا کہ ہمارے لئے پھانسی کا حکم ہوچکا ہے۔جب ہم نے پھانسی کا حکم سنا تو ہمارے چہروں کے اوپر تازگی آگئی کہ الحمدللہ اب منزل قریب ہے۔
اگلے دن جب انگریز آیا تو اس نے دیکھا کہ علمائے کرام کے چہروں پر بڑی تازگی ، بڑی رونق اور بڑا اطمینان ہے۔اس نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ آج تمہارے چہرے پر بڑا سکون نظر آرہا ہے۔ایک عالم نے کہا اس لئے کہ ہماری شہادت کا وقت قریب ہے۔جب انگریز نے یہ سنا تو وہ سوچنے لگ گیا۔چنانچہ اس نے فوراً اپنے افسر سے رابطہ کیا کہ ان کو پھانسی دیں گے تو اس پر یہ خوشیاں منا رہے ہیں اور ہم ان علماء کو خوش نہیں دیکھ سکتے۔چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ ان کو ساری عمر کے لئے کالاپانی کے اندر نظر بند کیا جائے۔چنانچہ اعلان ہوا کہ پھانسی کا فیصلہ واپس لیا جاتا ہے۔اس موقع پر مولانا تھانیسری ؒ نے ایک عجیب شعر لکھا:
مستحق   دار   کو   حکم   نظر   بندی   ملا
کیا کہوں کیسے رہائی ہوتے ہوتے رہ گئی

کہ اگر شہادت نصیب ہوجاتی تو رہائی ہوجاتی۔سبحان اللہ، شہادت کی خاطر کتنا تڑپنے والے لوگ تھے۔
جذبۂ جہاد ختم کرنے کی ناکام کوشش:
چنانچہ انگریز نے علماء کو پھانسی دینے کے بعد تیسرا کام یہ کیا کہ اس ملک کے اندر کچھ ایسے فرقے دین کے نام پر پیدا کئے جنہوں نے فتویٰ دیا کہ انگریز کے خلاف جہاد کرنا حرام ہے۔اس تاریخ کے پس منظر میں یہ سب باتیں سمجھنی آسان ہوجائیں گی کہ انگریز کا ساتھ دینے والے کون تھے؟یعنی میر جعفر اور میر صادق کون تھے جنہیں مربعے الاٹ ہوگئے۔آپ کو بڑے بڑے زمیندار ملیں گے جن کی تاریخ انگریزوں تک ملے گی اور جو حضرات قربانیاں دینے والے ملیں گے ان کی تاریخ ہمارے اسلاف کے ساتھ جا کر ملے گی چنانچہ انگریز نے ان تینوں باتوں پرعمل درآمد کیا۔قرآن مجید کے نسخے ضائع کئے۔علمائے کرام کو شہید کیا اور اس امت سے جذبۂ جہاد کو ختم کرنے کے لئے جہاد کی حرمت پر فتوے جاری کروائے۔
دس ہزار مدارس بند:
مختلف مدارس اس وقت وقف کی جائیداد سے چلا کرتے تھے۔چنانچہ انگریز نے وقف کی تمام املاک کو اپنے قبضے میں لے لیا اور یوں گویا مدارس کی شہ رگ کو کاٹ دیا گیا۔چنانچہ فقط دہلی شہر میں ایک ہزار مدارس بند ہوگئے۔بڑے بڑے مدارس کی تعداد دس ہزار تھی جن کو بند کر دیا گیا۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے مدرسہ رحیمیہ پر بلڈوزر پھیر دیا گیا اور بالکل برابر کردیاگیا۔انگریز اپنی طرف سے پورا بندوبست کر چکا تھا۔اس میں اس کو کئی سال لگ گئے۔(جاری ہے۔۔۔۔)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔