Sunday, February 28, 2016

علمائے دیوبند کا تاریخی پس منظر حصہ دوم


دارالعلوم دیوبند کا قیام:

1861ء میں پھر اللہ کے ایک مقبول بندے حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ کے دل میں خیال آیا کہ مسلمانوں سے ان کی دنیا تو چھین لی گئی، یہ کوئی اتنا بڑا نقصان نہیں ہے لیکن مسلمانوں سے تو اب ان کا دین چھینا جارہا ہے۔یہ بہت بڑا نقصان ہے۔لہذا اس کی تلافی کی کوئی صورت ہونی چاہئے۔ان کے سسرال دیوبند میں تھا اور یہ چھوٹی سی بستی تھی۔چنانچہ 1867ء میں انہوں نے اس چھوٹی سی بستی میں ایک دارالعلوم کی بیناد رکھی۔چھوٹی بستی کو اس لئے منتخب کیا گیا کہ بڑے شہر کی سرگرمیاں حکومت وقت کی نظر میں فوراً آ جاتی ہیں، چھوٹی بستی سے کام شروع کریں گے تو کسی کی نظر میں ہی نہیں آئیں گے۔واقعی ان کی بات سچ نکلی۔1867ء میں جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تو 30مئی کا دن تھا اور پندرہ محرم الحرام کی تاریخ بنتی تھی جب دارالعلوم دیوبند کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔انار کے ایک درخت کے نیچے ایک  استاد اور ایک شاگرد ، پڑھانے والے کا نام ملا محمودؒ اور پڑھنے والے کا نام محمود حسنؒ۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ پہلا قدم جو اٹھایا گیا ہے بالآخر اسے کتنا بڑا علمی مرکز بننا ہے۔ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کے دلوں کو علمی معارف سے سیراب کرنا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا جب سنگ بنیاد رکھا جانے لگا تو حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی ؒ نے یہ اعلان فرمایا کہ میں آج دارالعلوم دیوبند کا سنگ بنیاد ایک ایسی ہستی سے رکھواؤں گا جس نے اپنی زندگی میں کبیرہ گناہ تو کیا کرنا ، دل میں کبھی کبیرہ گناہ کرنے کا مصمم ارادہ بھی نہیں کیا۔
شاہ حسین احمدؒ کا تقویٰ:
مولانا اصغر حسین کاندھلوی ؒ کے ماموں شاہ حسین احمدؒ "منے شاہ" کے نام سے مشہور تھے۔ان کا قد دیکھنے میں اتنا بڑا نہیں تھا مگر اللہ تعالٰی کے یہاں بہت بڑا تھا۔وہ گھاس کاٹتے اور بیچ کر اپنی زندگی گزارتے تھے۔وہ تھوڑے تھوڑے پیسے روزانہ بچاتے رہتے۔پورے سال میں ان کے پاس اتنے پیسے جمع ہوجاتے تھے کہ دارالعلوم دیوبند کے تمام اساتذہ کی ایک مرتبہ وہ اپنے گھر میں دعوت کرتے تھے۔اساتذہ لکھتے ہیں کہ ہم سارا سال ان کی دعوت کے منتظر رہتے کیوں کہ جس دن ہم ان کے گھر کا کھانا کھاتے تھے چالیس دن تک ہمیں اپنی نمازوں کی حضوری میں اٖضافہ محسوس ہوتا تھا۔ایسے پرہیز گار انسان نے دارالعلوم دیوبند کا سنگ بنیاد رکھا۔

عابد کے یقیں سے روشن ہے سادات کا سچا صاف عمل

آنکھوں نے    کہا  دیکھا  ہو گا  اخلاص  کا  ایسا  تاج  محل

یہ اخلاص کا ایسا تاج محل بنا دیا کہ دنیا میں کوئی اس کی مثال نہیں ملتی۔
یہ وہ پاکیزہ ہستیاں ہیں جن کے ہاتھوں سے رکھی ہوئی اینٹ میں اتنی برکت پیدا ہوئی کہ اس دارالعلوم کو اللہ تعالٰی نے ایسی یونیورسٹی بنایا کہ آج مشرق اور مغرب شمال اور جنوب غرض ہر طرف دارالعلوم کا فیض نظر آتا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فیض:
اللہ رب العزت نے اس عاجز کو دین کی نسبت سے دنیا کے چالیس سے زیادہ ملکوں میں سفر کرنے کی توفیق بخشی۔اس جگہ بھی گئے جہاں چھ مہینے دن اور چھ مہینے رات ہوتی ، سائبیریا میں بھی گئے جہاں ہر طرف یخ بستہ ہوائیں اور برف ہی برف نظر آئی، ہم نے برف پر نمازیں پڑھیں، ایسی جگہ بھی دیکھی جس کو " دنیا کا آخری کنارہ" کہتے ہیں۔حکومت نے یہ بات وہاں لکھی ہوئی ہے۔کیوں کہ جون کے مہینے میں ایک ایسا دن آتا ہے جب وہاں پر قریباً ایک لاکھ سیاح اکٹھے ہوتے ہیں۔وہاں پر ایک دلچسپ منظر یہ ہوتا ہے کہ سورج غروب ہونے کے لئے سمند کے پانی کے قریب آتا ہے اور غروب ہونے کے بجائے دوبارہ طلوع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔اس لئے دنیا کے سائنسدان اس جگہ کو دنیا کا آخری کنارہ کہتے ہیں۔افریقہ کے جنگل بھی دیکھے اور امریکہ کی دنیا بھی دیکھی لیکن ایک بات عرض کردوں کہ یہ عاجز جہاں بھی گیا، آبادی تھی یا جنگل تھا، پہاڑوں کی چوٹیاں تھیں یا زمین کی پستیاں تھیں، وہاں پر دارالعلوم دیوبند کا کوئی نہ کوئی روحانی فرزند بیٹھا دین کا کام کرتا نظر آیا۔
"دارالعلوم دیوبند کو اتنی قبولیت حاصل ہوچکی ہے۔ "
جبالِ علم:
الحمد للہ یہ قبولیت عند اللہ ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں اس مادر علمی کے روحانی فرزند بیٹھے ہوئے دین کا کام کر رہے ہیں اور لوگوں کے سینوں کو نور سے بھر رہے ہیں۔بہرحال علماء دیوبند نے علمی کام جو شروع کیا تو یہاں سے نکلنے والے طلبا جبال علم بن گئے۔ایک ایک طالب علم ایسا تھا کہ جو اپنے وقت کا آفتاب اور ماہتاب ثابت ہوا۔یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا حتٰی کہ حضرت شیخ الہند محمودالحسن ؒ نے اپنے اسلاف کے اس علمی و عملی تسلسل کو جاری رکھا۔انگریز کے خلاف جہاد کی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
دارالعلوم دیوبند بمقابلہ علی گڑھ کالج:
مولانا مملوک علیؒ کے دو شاگرد تھے۔ایک کا نام تھا قاسم نانوتوی ؒ انہوں نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی اور ایک کا نام تھا احمد خان جو سرسید احمد خان کے نام سے مشہور ہوا۔بعد میں اس نے ایک کالج کی بنیاد رکھی۔علی گڑھ میں اسی نے انگریزی زبان سکھانے کو زیادہ ترجیح دی جب کہ دارالعلوم دیوبند میں خالصتاً دینی علوم کو پڑھانے پر زیادہ توجہ دی گئی تو یہ دونوں بڑی درس گاہیں اس وقت کی تھیں۔علی گڑھ نے کلرک پیدا کئے لیکن دیوبند نے محدثین و مفسرین پیدا کئے اور منبر و محراب کو سلامت رکھا۔
شیخ الہندؒ کی علی گڑھ آمد:
1920ء میں شیخ الہندؒ علی گڑھ تشریف لے گئے تو آپ نے وہاں جا کر اپنے اسلاف کی اس تاریخ کو بیان کیا۔اس کو سن کر علی گڑھ کے طلبا میں دین کا درد پیدا ہوا اور اس کے بعد پھر وہاں سے مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علی اور شبلی نعمانی ؒ جیسی شخصیتیں پید ہوئیں۔یہ اصل میں شیخ الہندؒ کا وہ جذبہ جہاد تھا جس نے طلبا کے دلوں کو سوزِعشق سے بھر دیا تھا۔جب آپ نے تقریر کر لی تو چند طالب علموں نے ایک سوال پوچھا کہ آپ انگریز کے ساتھ صلح کیوں نہیں کر لیتے؟حضرت شیخ الہندؒ نے اس موقع پر ایک عجیب شعر پڑھا
ہائے یہ صرف تمنا کی زبان سے دوریاں
اس قدر  یہ سختیاں  دشواریاں  مجبوریاں
یاد   ایام  جفا   آخر  بھلائیں  کس  طرح
دل فرنگی سے لگائیں تو لگائیں کس طرح
اس کے بعد ان طلبا کو پتہ چلا کہ ہمارے راستے جدا ہیں ہمارا ایک دوسرےکے ساتھ اکٹھا ہونا مشکل ہے۔ان کا دین اور ہے اور ہمارا دین اور ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا علمی فیض:
دارالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کی جلیل القدر شخصیت کا علمی فیض بہت زیادہ تھا۔شاہ جہان پور میں ایک مباحثہ ہوا کرتا تھا جس میں ہندو اور عیسائی سب مذاہب کے لوگ آتے تھے۔حضرت نے وہاں جا کر اسلام کے عنوان پر بیان کیا۔حتیٰ کہ غیر مسلموں کو لاجواب کر دیا۔آج کل مباحثہ شاہ جہان پور کے نام سے بازاروں میں چھوٹا سا پمفلٹ ملتا ہے۔اللہ تعالٰی نے ان کو فلسفہ اور منطق کا وہ علم دیا تھا کہ کوئی ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا تھا۔
شورش کشمیری ؒ کا اظہار عقیدت:
شورش نے حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کے بارے میں لکھا
شافع   کون   و   مکان  کی  راہ   دکھلاتا   رہا
گمراہان   شرک   کو   توحید   سکھلاتا    رہا
اس صدی میں عصر حاضر کا فقیہ بے مثال
سنت   خیر  الورا   کے   زمزمے   گاتا   رہا
پرچم  اسلام  ابر درخشاں  کے  روپ  میں
بت کدوں کی  چار  دیواری  پر  لہراتا   رہا
مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور عشق رسولﷺ:
دل میں عشق رسولﷺ اس قدر تھا کہ ان کا تعتیہ کلام پڑھتے ہیں تو حیران ہوجاتے ہیں چنانچہ نبی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شان میں عجیب اشعار لکھتے ہیں۔
سب سے پہلے مشیت  کے انوارسے
نقش     روئے     محمد      بنایا     گیا
پھر  اسی  نور  سے  مانگ  کر  روشنی
بزم   کون  و  مکاں   کو   سجایا   گیا
وہ   محمد  بھی  احمد  بھی   محمود  بھی
حسن فطرت کا شاہد بھی مشہود بھی
علم و حکمت میں وہ  غیر محدود بھی
ظاہراً     امیوں     میں    اٹھایا    گیا
نبی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شان میں عجیب اشعار کہا کرتے تھے۔حج پر حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنے جوتے اتار دئے۔نازک  بدن تھے کسی نے کہا، حضرت! آپ کے پاؤں زخمی ہو جائیں گے۔فرمایا، ہاں میں نے جوتے اس لئے اتار دئے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ جس جگہ پر میرے آقاﷺ کے مبارک قدم لگے ہوں قاسم نانوتوی کا جوتوں والا پاؤں عین اسی جگہ پر پڑ جائے۔چنانچہ فرماتے ہیں۔
امیدیں لاکھوں ہیں لیکن بڑی  امید   ہے  یہ
کہ  ہو  سگان  مدینہ   میں   نام   میرا   شمار
جیوں تو ساتھ سگان حرم کے تیرے  پھروں
مروں تو کھائیں مدینہ کےمجھ کومرغ  و مار
سبحان اللہ، عشق رسولﷺ سے ان کا دل بھرا ہوا تھا۔
ایک مرتبہ روضہ انور پر تشریف لے گئے تو وہاں جا کر عجیب شعر کہے
دمکتا  رہے تیرے  روضے  کا  منظر
چمکتی رہے تیرے روضے  کی  جالی
ہمیں بھی عطا ہو وہ جذب ابو ذررض‪‪‪‫
ہمی بھی عطا  ہو  وہ  روح  بلالیرض
ایک مرتبہ آپ کو حجرہ مبارک کے اندر جانے کا موقع ملا جب حجرہ مبارک کے اندر گئے تو واپسی پر آپ کے اوپر ایک عجیب کیفیت تھی۔لوگوں نے دیکھا کہ بڑا پرانور چہرہ اور عجیب کیفیت ہے تو کسی شاگرد نے پوچھا کہ حضرت! اندر کیفیت کیا تھی؟تو حضرت نے اشعار میں جواب دے دیا۔فرمایا
میرے آقا  کا  مجھ پر تو  اتنا  کرم  تھا
بھر دیا میرا دامن پھیلانے سے پہلے
یہ   اتنے   کرم   کا  عجب سلسلہ  تھا
نشہ  رنگ   لایا   پلانے   سے   پہلے
جب مدینہ طیبہ سے واپس ہونے لگے اور آخری وقت آپ نے روضہ انور پر نظر ڈالی تو اس وقت آپ نے یہ شعر پڑھا۔
ہزاروں بار تجھ  پر  اےمدینے   میں  فدا  ہوتا
جو بس چلتا تو مرکر بھی نہ میں تجھ سے جدا  ہوتا
اللہ رب العزت کے محبوبﷺ کی محبت ان کے دل میں سمائی ہوئی تھی۔
اتباع سنت:
نبی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اس محبت کی وجہ سے ایک ایک سنت پر ان عمل تھا۔ایک مرتبہ حضرت نانوتویؒ کی موٹ کے وارنٹ جاری کر دئے گئے۔جب پتہ چلا تو آپ روپوش ہوگئے۔روپوش ہونے کے پورے 3 دن بعد آپ باہر نکل آئے۔کسی نے کہا کہ حضرت انگریز آپ کو ڈھونڈ رہا ہے اور آپ کی موت کے وارنٹ جاری ہیں۔آپ نے فرمایا، میں نے اپنے آقا ﷺ کی زندگی پر غور کیا مجھے غار ثور میں روپوشی کے تین دن نظر آتے ہیں۔لہذا میں بھی تین دن غائب رہا۔اس کے بعد باہر نکل آیا ہوں۔انگریز اگر پکڑ لیں تو میں اپنی جان کا نذرانہ اللہ کے سپرد کر جاؤں گا۔سنت کا اتنا لحاظ اور خیال رکھا کرتے تھے۔
مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور عشق رسولﷺ:
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اس دارالعلوم دیوبند کے دوسرے سپوت تھے۔اپنے وقت کے بے مثال فقیہ تھے۔فتاویٰ رشیدیہ اکثر علماء کی نظروں سے گزرتا رہتا ہے۔اللہ رب العزت نے ان کو قطب الارشاد بنا دیا۔چالیس سال تک حدیث پاک کا درس دیا اور اتنی محبت کے ساتھ درس دیا کہ ایک مرتبہ طلبا کو درس حدیث پڑھا رہے تھے کہ اچانک بارش شروع ہوگئی۔طلبا نے فوراً اپنی کتابیں بغل میں دبائیں اور اپنے کمروں کی طرف بھاگے۔ان کے جوتے وہیں رہ گئے۔حضرت نے اپنے رومال کو وہیں بچھایا اور ان طلبا کے جوتے اس رومال کے اندر رکھے، گٹھڑی بنائی اور اپنے سر پر اٹھا کر کمرے میں لے آئے۔جب طلبا نے دیکھا تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔کہنے لگے حضرت! آپ ہمارے جوتے اٹھا کر لے آئے۔ہم خود اٹھا لیتے۔آپ نے بڑی سادگی سے جواب دیا کہ جو لوگ قال اللہ اور قال الرسول پڑھتے ہیں میں ان کے جوتے نہیں اٹھاؤں گا تو پھر اور کیا کروں گا۔اندازہ لگائیے کہ ان حضرات کو نبی کریمﷺ کے ساتھ کیسی محبت تھی۔
کسی نے مسجد نبوی کی تھوڑی سے مٹی لاکر دی اور کہا حجرے کی صفائی کرتے ہوئے میں یہ مٹی لے کر آیا ہوں تو آپ نے اس کو اپنی سرمہ کی شیشی میں ڈال دیا۔فرمایا، اچھا اگر یہ روضہ انور کی مٹی ہے تو ہم اسے اپنی آنکھوں کا سرمہ بنا لیں گے۔
آپؒ کو ایک مرتبہ مدینہ طیبہ کی چند کھجوریں ملیں۔آپ نے شاگرد سے کہا کہ میرے جتنے دوست ہیں۔ان کی فہرست بناؤ اور ان کھجوروں کے اتنے حصے کرو تاکہ سب کو ہدیہ بھیجیں۔اس نے کہا حضرت! یہ کھجور کا ٹکڑا تو بہت ہی چھوٹا ہے۔فرمایا، اگر شریعت میں اجازت ہوتی تو میں تجھ سے بولنا چھوڑ دیتا۔اس لئے کہ مدینہ کی کھجور کے ٹکڑے کو تو نے چھوٹا کہہ دیا۔یہ چھوٹے کا لفظ ہی استعمال کیوں کیا۔اتنی محبت تھی۔چنانچہ کھجور کھا لیتے تو گٹھلی کو پیس کر اس کا برادہ منھ میں لے کر اوپر سے پانی پی لیا کرتے تھے تاکہ وہ بھی جزو بدن بن جائے۔
حضرت شیخ الہند ؒ اور خوف خدا:
حضرت شیخ الہندؒ وہ  دارالعلوم دیوبند کے تیسرے سپوت تھے جنہوں نے انگریز کے خلاف آزادی حاصل کرنے کے لئے بہت نمایاں کام کیا۔ان کے بارے میں شورش کشمیری لکھتے ہیں۔
گردش دوراں کی سنگینی سے  ٹکراتا  رہا
مالٹا   میں  نغمہ  مہر   و   وفا    گاتا   رہا
مالٹا میں آپ کو قید کر دیا گیا۔پابند سلاسل رہے۔انکے کچھ اور شاگرد حضرت مولانا حسین احمد مدنی، حضرت مولانا عزیز گل وغیرہ بھی ساتھ تھے۔انگریز نے ان پر بہت سختیاں کیں۔مگر یہ اپنی بات پر ڈٹے رہے۔
ایک عجیب واقعہ کتابوں میں پڑھا ہے کہ جب انگریز نے یہ فیصلہ کر دیا کہ ان کو پھانسی دے دی جائے تو یہ اطلاع ملنے کے بعد حضرت شیخ الہندؒ پر بہت گریہ طاری رہتا تھا۔آپ نے بہت زیادہ رونا شروع کردیا۔آپ کے شاگرد حیران ہوتے کہ ہمیں پھانسی کا حکم ہوگیا ہے تو یہ خوشی کی بات ہے لیکن جب اپنے شیخ کو دیکھتے تو وہ خوب کثرت کے ساتھ روتے اور گریہ و بکا صبح و شام کرتے نظر آتے ہیں۔دل اتنا نرم ہوچکا تھا کہ ذرا ذرا سی بات پررونے لگ جاتے۔حتی کہ حضرت مولانا مدنیؒ اور حضرت مولانا عزیز گلؒ نے دل میں سوچا کہ ہم کسی وقت حضرت کی خدمت میں عرض کریں گے کہ اتنا رونے کی کیا وجہ ہے۔اگر پھانسی کا حکم آچکا ہے تو یہ خوشی کی بات ہے۔اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔
چنانچہ ایک موقع پر کھانے سے پہلے انہوں نے عرض کیا کہ حضرت! آپ آج کل بہت زیادہ روتے ہیں، آپ کے اوپر بہت زیادہ گریہ طاری ہوتا ہے آخر کیا وجہ ہے۔پھانسی کا حکم صادر ہوچکا ہے تو یہ خوشی کی بات ہے۔اللہ تعالٰی ہماری جان کو اپنے راستے میں قبول کر لیں گے۔یہ تو کوئی ایسی رونے والی بات نہیں ہے۔جب انہوں نے یہ بات کہی تو حضرت شیخ الہندؒ نے اس وقت ان کو ذرا رعب بھری نظروں سے دیکھا۔کہتے ہیں کہ ہمارے تو اس وقت پسینے چھوٹ گئے کہ حضرت اتنے جلال سے ہمیں دیکھ رہے ہیں اور پھر اس کے بعد فرمایا کہ تم کیا سمجھتے ہو، میں موت کے خوف سے یا پھانسی کے خوف سے نہیں روتا بلکہ میرے ذہن میں کوئی اور بات ہے۔انہوں نے عرض کیا، حضرت! پھر کچھ ہمیں بھی بتا دیجئے۔حضرت نے فرمایا میرے دل میں یہ بات آگئی کہ اللہ رب العزت بے نیاز ہیں، میں اس کی شان بے نیازی کی وجہ سے روتا ہوں۔اس لئے کہ کبھی کبھی وہ بندے سے جان بھی لے لیا کرتا ہے اور اس کی جان کو قبول بھی نہیں کیا کرتا۔میں تو اس لئے روتا ہوں کہ اے اللہ! اگر تو نے جان لیتے کا فیصلہ کر لیا ہے تو میرے مولا! اس کو قبول بھی فرمالینا۔
تشدد کی انتہا:
حکیم اجمل خان آپ کے مریدین میں سے تھا۔آپ بیمار تھے اور اس کے یہاں علاج معالجہ کے لئے آئے ہوئے تھے۔وہیں 1920ء میں آپ کی وفات ہوئی اور وہیں سے جنازہ اٹھایا گیا۔جب ان کو غسل دیا جانے لگا تو غسل دینے والے نے دیکھا کہ آپ کی پشت کے اوپر گہرے زخم کے نشان موجود ہیں۔ایسی پشت کبھی دیکھی نہیں تھی۔لوگ پریشان تھے کہ آخر یہ کیا بات تھی کہ آپ کی پشت پر اتنے گہرے گہرے نشان ہیں۔
حضرت مدنی ؒ اس وقت کلکتہ میں تھے۔وہ بھی وفات کی خبر سن کر وہاں پہنچے۔جب ان سے پوچھا گیا تو حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ نے اس وقت راز فاش کیا اور کہا کہ اصل میں مالٹا میں ان کو آگ کے انگاروں پر لٹایا جاتا اور انگریز کہتا کہ تم ہمارے ساتھ وفاداری کا عہد کرو اور ہمارے حق میں فتویٰ دو، ورنہ ہم تمہیں آگ کے انگاروں پر لٹائے رکھیں گے۔حضرت کے خون سے آگ کے انگارے بجھتے ، اتنی تکلیف اٹھاتے مگر انگریز سے کہتے رہتے، انگریز! میں کبھی تیرے حق میں فتویٰ نہیں دے سکتا۔ارے میں بلال رضی اللہ عنہ کا وارث ہوں، جن کو ریت کے اوپر لٹایا جاتا تھا اور سینے پر چٹانیں رکھ دی جاتی تھیں۔میں تو خبیب رضی اللہ عنہ کا وارث ہوں جن کی کمر کے اوپر زخموں کے نشانات تھے۔میں تو امام مالک ؒ کا وارث ہوں جن کے چہرے پر سیاہی مل کے ان کو مدینہ بھی میں پھرایا گیا تھا۔میں تو امام ابوحنیفہؒ  کا وارث ہوں جن کا جنازہ جیل سے نکلا تھا۔میں تو امام احمد بن حنبلؒ کا وارث ہوں جن کو ستر کوڑے لگائے گئے تھے۔میں علمی وارث ہوں، حضرت مجدد الف ثانیؒ کا میں روحانی فرزند ہوں، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کا، بھلا میں تمہاری اس بات کو کیسے قبول کر سکتا ہوں۔چنانچہ سب تکالیفوں کو برداشت کر لیتے تھے مگر زبان سے انگریز کے حق میں کوئی بات نہیں کہتے تھے۔یہ ان کی قربانیاں تھیں بالآخر انگریز کو پیچھے ہٹنا پڑا۔انگریز نے پہلے فیصلہ کیا تھا کہ ان کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے بالآخر اس نے فیصلہ کیا کہ پھانسی نہیں دیتے چلو چھوڑ دیتے ہیں۔چنانچہ انگریز کو فیصلہ بدلنا پڑا۔اللہ رب العزت نے ان کی عزم و استقامت کی وجہ سے ان کو کامیابی عطا فرما دی۔کتنی عجیب جات کہی:
حالات کے  قدموں میں  قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے   جو   ستارہ   تو   زمین   پہ  نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن  کسی   دریا   میں   سمندر   نہیں  گرتا
آپ تو سمندر تھے بھلا دریا میں کیسے گر سکتے تھے۔آپ کے اس عزم و استقامت کو سلام کرنا چاہیے۔اس وجہ سے اللہ رب العزت نے آپ کو یہ عظمت عطا فرمائی کہ الحمدللہ آپ کا علمی فیض خوب پھیلا۔
مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا علمی مقام:
حضرت اقدس تھانوی ؒ بھی اسی مادر علمی کے فرزند ارجمند تھے۔اللہ رب العزت نے ان کو علم کا وہ مقام عطا فرمایا تھا کہ ایک ہی وقت میں مفسر بھی تھے، فقیہ بھی تھے اور صوفی بھی تھے۔اللہ رب العزت نے دین کے ہر شعبے میں ان کو بلند مقام عطا فرمایا تھا۔زمانہ طالب علمی سے آپ کے اندر علمی جواہر نظر آرہے تھے۔چنانچہ فارغ التحصیل ہوئے تو دارالعلوم کی انتطامیہ نے فیصلہ کیا کہ ان طلباء کی دستار بندی کی جائے۔آپ اپنے چند طلباء اور ساتھیوں کو ساتھ لے کر حضرت شیخ الہندؒ کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ حضرت ہم ایک فریاد لے کر آئے ہیں۔آپ اسے پورا کر دیجئے۔پوچھا ، کون سی بات ہے؟عرض کرنے لگے کہ حضرت! ہم نے کتابیں تو مکمل کر لیں، ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مدرسہ کی انتظامیہ ہماری دستار بندی کروانا چاہتی ہے۔ہم اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ ہم اس قابل نہیں، اگر ہماری دستار بندی کروا دی گئی تو دارالعلوم کی بدنامی ہوجائے گی کہ ایسے نالائق طلباء کی دستار بندی کروا دی ہے۔آپ مہربانی فرمائیے اور دستار بندی نہ کروائیے۔جب انہوں نے یہ بات کہی تو شیخ الہند ؒ کو جلال آگیا، فرمایا اشرف علی ! تم اپنے اساتذہ کے مانے رہتے ہو اس لئے تمہیں اپنا آپ نظر نہیں آتا، جب ہم نہیں ہوں گے تو پھر تم ہی تم ہوگے اور واقعی ہی ہوا کہ جب یہ اساتذہ فوت ہوگئے تو پھر حضرت تھانویؒ کے علوم کا ڈنکا بجا کرتا تھا۔سبحان اللہ ، تھانہ بھون کی خانقاہ اصلاح کے لئے اپنی مثال آپ تھی۔
کتابو ں کی تعداد:
ایک صاحب نے حضرت تھانوی ؒ کی شخصیت کے اوپر  پی-ایچ – ڈی کی۔اس نے حضرت تھانویؒ کی 2800 کتابوں کی فہرست بنائی جنہیں آپ نے اپنی زندگی میں خود لکھا یا ہدایات دے کر اپنے شاگردوں سے لکھوائیں۔
حضرت کشمیری ؒ کا بے مثال حافظہ:
حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے ان کو وہ قوت حافظہ عطا کی تھی کہ اس کی مثال اس قریب کے دور میں کہیں نہیں ملتی۔مرزائیوں نے بہاولپور میں جب انگریز کی عدالت کے اندر مقدمہ لڑا اس وقت انہوں نے ایک تحریر پیش کی جس تحریر سے ان کے حق میں کوئی بات ثابت ہوتی تھی۔اس تحریر کو پڑھ کر یہی محسوس ہوتا تھا کہ ان کی بات سچی ہے۔انگریز جج نے حضرت کشمیری ؒ سے کہا کہ یہ تو جو بات کر رہے ہیں اس کی دلیل بھی دے رہے ہیں۔تو حضرت نے فرمایا کہ ذرا یہ کتاب مجھے دکھا دیں۔آپ نے کتاب دیکھی اور فرمایا کہ یہ لوگ دھوکہ دینا چاہتے ہیں،، میں دھوگے میں آنے والا نہیں۔میں نے آج سے 27 سال پہلے یہ کتاب  دیکھی تھی اور مجھے عبارت آج بھی یاد ہے۔انہوں نے درمیان سے ایک سطرکو حذف کردیا ہے، لہذا دوسرا نسخہ منگوایا جائے۔چنانچہ دوسرا نسخہ منگوایا تو اس میں وہ سطر واقعی موجود تھی۔جس سے مطلب مسلمانوں کے حق میں آتا تھا اور ان مرزائیوں کی دھوکہ دہی بے نقاب ہوگئی۔لوگ حیران ہوگئے کہ 27 سال پہلے دیکھی ہوئی کتاب کا متن اس وقت بھی زبانی یاد تھا۔اللہ رب العزت نے بے مثال قوت حافظہ ان کو عطا فرمائی تھی۔
(ایک کتاب تھی جامعۃ الازہر میں ان کے استاد نے بھیجا کہ جا کر کتاب نقل کر کے لے آؤ۔ازہر والوں نے کہا کتاب پڑھ سکتے ہو لکھ نہیں سکتے۔انہوں نے کہا مہربانی کرو میں دارلعلوم دیوبند سے آیا ہوں،اور اس زمانے میں تو کرایہ خرچ کرنا بڑی مشکل سی بات تھی۔انہوں نے کہا کہ اگر لکھنے کی ہم اجازت دے دیتے تو تم اتنا سفر کر کے کیوں آتے؟خیر شاہ جی ؒ نے کتاب پڑھ لی اور واپس تشریف لے آئے۔ان کے استاد نے انہیں بلایا اور پوچھا انور شاہ کتاب نقل کر لی ہے؟کہا میں نے وہ کتاب پڑھ تو لی ہے لیکن وہ  کتاب نقل کرنے نہیں دیتے۔استاد کے چہر ے پر غم کے بادل چھا گئے ، فرمایا انور شاہ! سفر بھی کیا ، مدرسے کا خرچ بھی ہوا  اور کام بھی نہ بنا۔شاہ جی ؒ چپ کر کے اٹھ کے چلے گئے اور رات کو اپنے حافظے کے زور پہ کتاب لکھ کر استاد کو پیش کردی۔کہا حضرت میں نے یہ کتاب پڑھی تھی۔حضرت نے کہا اس کی کاپیاں کرو،کئی نسخے بنا لیے گئے ،ایک نسخہ جامعۃ الازہر کو بھیجا گیا کہ بھئی اس کو ملا کر تو دیکھ لو کوئی غلطی تو نہیں رہ گئی۔انہوں نے جب کتاب کو ملایا دیکھا شروع سے لے کر آخر تک کوئی غلطی نہیں تھی۔انہوں نے اس کتاب میں  لکھا " امام بخاری کے حافظے کے بعداگر ہم نے کوئی دیکھا ہے تو وہ انور شاہ کشمیری ؒ ہے" )از بیان مولانا محمد خیر المعروف مولانا مکی دامت برکاتہم عالیہ
ہندوؤں کا قبول اسلام:
چند ہندو آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوگئے۔لوگوں نے ہندوؤں سے کہا کہ تم مسلمان کیوں ہوگئے تو انہوں نے حضرت کشمیریؒ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے انسان کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔ہم نے یہ چہرہ دیکھ کر اسلام قبول کر لیا ہے۔اللہ رب العزت نے ایسا کمال عطا کیا تھا۔
حضرت مدنی ؒ اور عشق رسولﷺ
حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے دل میں اللہ رب العزت نے عشق رسولﷺ خوب بھر دیا تھا۔ان کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ ذی الحجہ کے جب پہلے دس دن آتے تو ان کی طبیعت کے اندر بے قراری آتی۔چنانچہ ذی الحجہ کے ان دس دنوں میں جسم یہاں ہوتا مگر دل وہاں ہوتا۔سارا دن وہیں کے بارے میں سوچتے رہتے حتیٰ کہ دستر خوان پر روٹی کھانے بیٹھتے تو بعض اوقات روٹی کھاتے اٹھتے جاتے اور کھڑے ہوکر کہتے، معلوم نہیں عشاق کیا کر رہے ہوں گے۔کوئی غلاف کعبہ کو پکڑ کر دعائیں مانگ رہا ہوگا، کوئی مقام ابراہیم پر سجدہ ریز ہوگا، تو آپ ان کا تصور ذہن میں لا کر کہتے معلوم نہیں عشاق کیا کر رہے ہوں گے۔اس طرح آپ کو کھانا اچھا نہ لگتا، کبھی آسمان کی طرف دیکھ کر کہتے، معلوم نہیں عشاق کیا کر رہے ہوں گے۔
اللہ رب العزت کو یہ بات پسند آئی تو اللہ تعالٰی نے حرمین شریفین کا دروازہ ان کے لئے کھول دیا۔ایک مرتبہ آپ مدینہ طیبہ تشریف لے گئے۔آپ ہندوستان کے ان برگزیدہ علماء میں سے ہیں جن کو اٹھارہ سال مسجد نبویﷺ میں درس حدیث کی توفیق نصیب ہوئی۔سبحان اللہ، وہاں حدیث پڑھاتے ہوئے ادھر گنبد حضرا کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کرتے تھے "قال ھذا النبی صلی اللہ علیہ وسلم "۔
جرأت ہوتو ایسی:
اللہ رب العزت نے دل میں جرت اتنی دی تھی کہ جب وینہ ہال کراچی میں انگریز نے ان کو عدالت کے اندر حاضر کیا تو انگریز نے کہا، کہ حسین احمد! تمہیں پتہ ہے کہ تم نے ہمارے خلاف فتویٰ دیا ہے۔اس کا نتیجہ کیا ہے۔آپ نے فرمایا، کہ ہا ں مجھے پتہ ہے۔اس نے کہا، کیا پتہ ہے؟آپ نے اپنے کندھے کی سفید چادر اس کو دکھا دی۔انگریز نے کہا کہ یہ کیا ہے؟فرمایا، کہ یہ میرا کفن ہے جو میں اپنے کندھے پر لئے پھرتا ہوں۔زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ میری موت کا حکم صادر ہوجائے گا۔مجھے پھانسی چڑھا دی جائے گی تو مجھے کسی سے اپنا کفن مانگنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔
فنا فی اللہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے
جسے مرنا نہیں آتا  اسے جینا  نہیں  آتا
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ورثۃ الانبیاء ہونے کا حق ادا کردیا تھا۔
متقدمین کا قافلہ:
علمائے دیوبند کے بارے میں شاہ جی ؒ فرمایا کرتے تھے کہ "صحابہ کرام کا ایک قافلہ جا رہا تھا ان میں سے چند ارواح کو اللہ تعالٰی نے پیچھے روک لیا۔یہ وہی روحیں تھیں جن کو اس دور کے اندر پیدا کر دیا تاکہ بعد میں آنے والے متاخرین متقدمین کی زندگی کے نمونے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔"
اور واقعی ان کی اتباع سنت کو دیکھیں، ان کے تقویٰ کو دیکھیں تو یہی نظر آتا ہے کہ سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک یہ حضرات نبی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سنتوں سے سجے ہوئے تھے۔
اللہ کی طرف سے چناؤ:
یہ کوئی اتفاقی باتیں نہیں تھیں بلکہ یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے چناؤ معلوم ہوتا ہے۔دیکھئے ایک روایت میں آتا ہے کہ ہر صدی کے آخر پر اللہ تعالٰی ایک بندے کو پیدا فرماتا ہے جو مجدد ہوتا ہے۔جو دین کی تجدید کا کام کرتا ہے، جو شرک و بدعات و رسومات کو ختم کر دیتا ہے اور نبی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سنتوںکو دوبارہ زندہ کردیتا ہے تو 100 سال کے بارے میں حدیث پاک میں بھی اس کاتذکرہ ہے۔تو علمائے دیوبند چنے ہوئے لوگ تھے۔اگر ان کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو ان کی زندگیوں میں عجیب تناسب نظر آتا ہے۔آپ کے سامنے دو تین مثالیں بیان کی جاتی ہیں۔
آپ ذرا غور کیجئے کہ حضرت شاہ عبد العزیزؒ کی وفات 1239ھ میں ہوئی اور حضرت شیخ الہندؒ کی وفات 1337ھ میں ہوئی۔تقریباً سو سال کا فرق ہے۔شاہ عبد العزیزؒ بھی مجاہد تھے، شیخ الہند ؒ بھی مجاہد تھے، شاہ عبد العزیز ؒ نے انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے دیا تھا اور شیخ الہندؒ نے اس فتویٰ کے اوپر عمل کرکے دکھا دیا تھا۔تقریباً ایک سو سال کے بعد ان کی وفات ہورہی ہے۔100 سال کا وقفہ اتفاقی بات نہیں تھی۔بلکہ یہ قدرت کا چناؤ نظر آتا ہے۔
حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کی وفات 1246ھ میں ہوئی اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی وفات 1346ھ میں ہوئی۔حضرت مولانا خلیل احمدؒ نے شرک و بدعت کو ختم کیا تو شاہ اسماعیل شہیدؒ نے تقویۃ الایمان لکھ کر شرک کی جڑیں کاٹ کے رکھ دیں۔مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ نے بھی بدعات کا قلع قمع کردیا تھا۔ان دونوں کی وفات میں بھی پورے 100 سال کا فرق بنتا ہے۔
علامہ شامیؒ کی وفات 1252ھ میں ہوئی تو علامہ انورشاہ کشمیریؒ کی وفات 1352ھ میں ہوئی۔حضرت علامہ شامیؒ بھی علم کے سمندر تھے اور حضرت کشمیری ؒ بھی علم کے سمندر تھے۔یوں لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک چناؤ ہے۔ایک بندہ دنیا سے رخصت ہوتا تھا اللہ دوسرے بندے کو پیدا فرما دیتے ہیں اور آئندہ آنے والے 100 سال میں وہ بندہ کام کرتا تھا۔
اللہ تعالٰی نے علمائے اہل سنت والجماعت دیوبند سے دین کا کام لیا تو ہمارا ان کے ساتھ روحانی، علمی تعلق ہے۔الحمدللہ آج ان حضرات کے علمی فرزند موجود ہیں۔جن حضرات نے نبی علیہ السلام کی ایک ایک سنت پر عمل کیا اور انہوں نے دین کے پرچم لہرا دیئے۔انگریز کے خلاف جہاد کیا جس کی وجہ سے آج ہم آزادی کا سانس لے رہے ہیں۔ہمارا علمی رشتہ ان سے لے کر نبی کریمﷺ تک پہنچتا ہے۔
ہم ٹپکے کے آم نہیں:
ہم کوئی ٹپکے کے آم نہیں ہیں آپ نے یہ الفاظ پہلے بھی سنے ہوں گے کہ آم کا باغ ہوتا ہے تو اس میں مختلف نسل کے آم ہوتے ہیں۔باغ کا مالی جس درخت سے آم توڑتا ہے تو وہ ٹوکری میں ڈال کر نام لکھ دیتا ہے کہ یہ فلاں نسل کے آم ہیں۔چنانچہ منڈی میں آکر آم نسل کے نام سے بکتے ہیں۔نام کی وجہ سے ان کی قیمت زیادہ لگتی ہے۔لیکن کچھ آم ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو پرندے خود توڑ کے پھینک دیتے ہیں۔وہ بہت سارے آپس میں مل جاتے ہیں تو ان کا پتہ نہیں چلتا کہ یہ کس نسل کے ہیں۔ان کو باغ والا آدمی ٹوکری بھر دیتا ہے اور لکھ دیتا ہے کہ یہ ٹپکے کے آم ہیں۔مجھے ان  کی نسل کا پتہ نہیں ہے۔ٹپکے کے آم کریدنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔
ہم رات کے اندھیرے میں نہیں بلکہ دن کی روشنی میں کہتے ہیں کہ ہم ٹپکے کے آم  نہیں ہیں بلکہ ہمارا علمی رشتہ نبی آخر الزماں تک پہنچتا ہے۔علمائے دیوبند کو اللہ رب العزت نے جو علمی کمالات عطا کئے الحمدللہ ان علمی کمالات کا رشتہ نبی علیہ الصلٰوۃ والسلام تک پہنچتا ہے۔چنانچہ علماء دیوبند کے سرخیل امام حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ تھے۔
٭حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے دین سیکھا حضرت شاہ عبد الغنیؒ سے
٭حضرت شاہ عبدالغنیؒ نے دین سیکھا شاہ حضرت اسحاقؒ سے
٭حضرت شاہ اسحاقؒ نے دین سیکھا حضرت شاہ عبدالعزیزؒسے
٭حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ نے دین سیکھا حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ سے
٭حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے دین سیکھا حضرت ابو طاہر مدنیؒ سے
٭حضرت شیخ ابوطاہر مدنی ؒ نے دین سیکھا حضرت حسام الدینؒ سے
٭حضرت شیخ حسام الدینؒ نے دین سیکھا حضرت ربیع بن سعیدؒسے
٭حضرت ربیع بن سعیدؒ نے دین سیکھا حضرت ابواسحاق مدنیؒ سے
٭حضرت بو اسحاق مدنیؒ نے دین سیکھا حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ سے
٭حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ نے دین سیکھا حضرت امام محدث یحیی بن معینؒ سے
٭ حضرت امام محدث یحیی بن معینؒ نے دین سیکھا حضرت امام ابو یوسفؒ سے
٭حضرت امام ابویوسفؒ نے دین سیکھا حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ سے
٭حضرت امام ابو حنیفہؒ نے دین سیکھا حضرت امام حمادؒسے
٭حضرت امام حمادؒ نے دین سیکھا حضرت عبداللہ بن مسعودرض
٭حضرت عبداللہ بن مسعودرض نے دین سیکھا حضرت محمدﷺ سے
الحمدللہ ثم الحمدللہ کہ ہماری یہ علمی اور روحانی نسبت نبی علیہ السلام کے ساتھ جا کر ملتی ہے۔
ذکر کا بنیادی مقصد:
حضرت تھانوی ؒ فرماتے تھے کہ ذکر کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان کے رگ رگ اور ریشے ریشے سے گناہوں کا کھوٹ نکل جائے۔جو اذکار بتلائے جاتے ہیں  اور تزکیہ نفس کی جو محنت کروائی جاتی ہے اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس ذکر کے کرنے سے اندر ایسی کیفیت آجاتی ہے کہ دل منور ہوجاتا ہے۔پھر اللہ تعالٰی علوم و معارف کی بارشیں کردیاکرتے ہیں۔
علوم و معارف کی بارش:
حضرت تھانویؒ اپنے بارے میں خود فرماتے ہیں کہ ہم شیخ الہندؒ سے جلالین شریف پڑھا کرتے تھے اور میں تکرار کے وقت طلباء کا مانیٹر تھا۔میرے ذمے تکرار ہوتی تھی۔ایک دفعہ تکرار کرتے ہوئے ایک اشکال وارد ہوا جو رفع ہی نہیں ہوتا تھا۔سب طلباء نے سوچا مگر کسی کے ذہن میں جواب نہیں آیا۔بالآخر سب طلباء نے کہا کہ تم چوں کہ ذمہ دار ہو اس لئے کل کے درس سے پہلے حضرت سے اس کا جواب پوچھ لو۔میں نے کہا بہت اچھا۔اگلے دن میں نے جلالین شریف اپنی بغل میں لی اور فجر کے لئے مسجد میں آگیا۔
سردی کا موسم تھا میں نے فجر کی نماز پڑھتے ہی حضرت شیخ الہندؒ کے قریب جانے کی کوشش کی۔مسجد کے ساتھ ہی ان کا حجرہ تھا۔میرے جانے سے پہلے وہ حجرے میں تشریف لے گئے اور دروازے کی کنڈی بند کرلی۔میں دیر سے پہنچا۔میں نے دل میں سوچا کہ اشرف علی!تجھے اپنے نفس کو سزا دینی چاہئے کہ نکلنے میں تاخیر کیوں ہوئی۔چنانچہ سردی کے موسم میں میں دروازے کے باہر کھڑا ہوگیا کہ جب حضرت اشراق پڑھ کر نکلیں گے تو میں حضرت سے ان کا جواب پوچھ لوں گا۔فرماتے ہیں کہ میں سردی سے ٹھٹھر رہا تھا لیکن ذرا کان جو لگائے تو اندر حضرت بیٹھے لاالٰہ کا ذکر کر رہے تھے۔فرمایا ذکر تو حضرت کر رہے تھے لیکن سن کر مزہ مجھے آرہا تھا۔ اللہ رب العزت نے ان کو وہ ذوق عطا کیا تھا کہ لاالٰہ کی ضربوں سے سننے والوں کو وجد آجاتا تھا۔
حضرت نے اشراق پڑھی تو اس کے بعد دروازہ کھولا، میں حیران ہوا کہ سردی کے موسم میں شیخ الہندؒ کی پیشانی پر پسینے کے قطرے تھے۔ذکر کی حرارت پیشانی پر پسینے کی شکل میں ظاہر ہورہی تھی۔مجھے دیکھ کر فرمایا، اشرف علی! تم یہاں کیسے کھڑے ہو؟میں نے کہا، حضرت! ایک بات پوچھنی ہے۔میں نے کتاب کھول دی۔حضرت نے دیکھا تو اس کے متعلق تقریر فرمانی شروع کردی۔کہتے ہیں کہ حضرت تقریر فرماتے رہے،الفاظ بھی میرے لئے غیر مانوس تھے اور معانی بھی کچھ سمجھ نہیں آرہے تھے۔حضرت نے تقریر فرما کر کہا، اشرف علی ! تم سمجھ گئے ہو؟میں نے کہا، حضرت ! کچھ سمجھ نہیں آئی۔میں نے دل میں کہا، حضرت!کچھ نزول فرمائیے تاکہ مجھے بھی بات سمجھ آسکے۔حضرت نے دوبارہ تقریر کرنی شروع کردی۔دوبارہ جب تقریر کی تو الفاظ تو مجھے کچھ مانوس محسوس ہوتے تھے، سنے ہوئے تھے لیکن مطلب پھر بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔حضرت نے تقریر مکمل کی۔دوسری مرتبہ فرمایا، اشرف علی! اب تمہیں بات سمجھ آئی۔میں نے کہا، حضرت! اب بھی سمجھ میں نہیں آئی۔حضرت نے فرمایا، اشرف علی! میری اس وقت کی باتیں تمہارے فہم و ادراک سے بالا ہیں لہذا کسی اور وقت میں مجھ سے پوچھ لینا۔
الحمد للہ ہم ان اساتذہ کے شاگرد ہیں جو اللہ رب العزت کا ذکر کرتے تھے تو علوم و معارف کی اتنی بارش ہوتی تھی کہ ایک ہی مضمون کو کئی کئی انداز سے بیان کرتے تھے مگر سمجھنے والوں کے فہم و ادراک سے بالا ہوا کرتی تھیں۔
اللہ رب العزت ہمیں ان اسلاف کے نقش قدم پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمادے، ہمیں اپنے آپ پر محنت کرنے اور اپنے علم پر عمل کرنے کی، اپنے اندر سے دورنگی ختم کرنے کی اور اپنے اندر سے معصیت ختم کرنے کی توفیق عطا فرمادے۔آمین ثم آمین۔
مکمل تحریر >>

Saturday, February 20, 2016

حضرت مولانا شیخ ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم عالیہ کے شمائل و خصائل

شمائل و خصائل :


آپ کی جاذب نظر شخصیت کو ذکر اللہ کے انوارات نے گویا کوثر و تسنیم سے دهویا ہے.عشق الہی نے اس پر خوش نما غازہ کا عمل کیا، ہر کام میں اتباع سنت نے اس کو نکهار بخشا.چنانچہ آپ کی شخصیت پر پڑنے والی ہر نظر ایک درس حیات ثابت ہوتی ہے.آپ منشور کی طرح ایسی پہلودار شخصیت کے حامل ہیں کہ جس پہلو سے دیکها جائے اس میں قوس قزح کے مانند سب رنگ سمٹتے نظر آتے ہیں.

لباس:

آپ عموما سفید لباس زیب تن فرماتے ہیں. سنت کے مطابق گهٹنوں سے نیچے کرتہ، ٹخنوں سے اوپر شلوار، دائیں کندھے پر سفید رومال، سفید عمامہ ٹوپی کے ساتھ پہنتے ہیں. "الانسان باللباس"کے مصداق آپ لباس کی صفائی کا بہت اہتمام کرتے ہیں. آپ کا لباس گو سادہ کپڑے کا بنا ہوتا ہے، مگر انتہائی صاف شفاف نظر آتا ہے.آپ ہمیشہ سفید لباس کوہی ترجیح دیتے ہیں، کیوں کہ سفید لباس کے نفسیاتی روحانی اثرات قلب پر بهی پڑتے ہیں.

انداز گفتگو:

آپ کی آواز میں قدرتی طور پر حلاوت پائی جاتی ہے.بعض اوقات انسان آواز سنتے ہی بے ساختہ آپ سے محبت کرنے لگتا ہے.آپ نجی گفتگو دھیمی آواز میں کرتے ہیں. ناصحانہ اور مشفقانہ انداز میں بات کرتے ہیں. دوران گفتگو "تم لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق بات کرو"کو پیش نظر رکهتے ہیں. اردو زبان میں شستہ گفتگو فرماتے ہیں. جب اللہ رب العزت سے عشق و محبت کا بیان فرماتے ہیں تو بے ساختہ اس شعر کا مصداق بن جاتے ہیں: اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے عشق کے دردمند کا طرز کلام اور ہے.

انداز بیان:

قدرت نے آپ کو وہبی علوم کے ساتھ ساتھ دعوت و ارشاد کا ملکہ بهی عطا فرمایا ہے.آپ کا انداز بیان عموما موقع و محل کے مطابق ہوتا ہے.انسان شناسی اور موقع شناسی آپ کے خاص وصف ہیں، تاکہ موقع کے حساب سے بات ہوسکے. آپ کی زبان مبارک سے علوم و معارف چهن چهن کر آتے ہیں. ایسے لگتا ہے کہ مضامین کے ستارے آسمان سے اتارے گئے ہیں. بات چونکہ دل سے نکلتی ہے لہذا سیدھی دل میں اتر جاتی ہے.

باطن میں ابهر ، کر ضبط فغاں ، لے اپنی نظر سے کار زباں
دل جوش میں لا فریاد نہ کر ، تاثیر دکها تقریر نہ کر

ہر وقت موت کا استحضار:

حضرت جی دامت برکاتہم عالیہ فرماتے ہیں :جب بهی کبهی گهر سے سفر پر نکلتا ہوں تو اس طرح رخصت ہوتا ہوں کہ جیسے دوبارہ ملاقات نہ ہوگی،"فی امان اللہ"کہہ کر روانہ ہوتا ہوں. اس سے معلوم ہوتا ہے گویا ہر وقت موت کا استحضار رکهتے ہیں. جسے ہر وقت موت کا استحضار رہے پهر اس کی نصیحت ضرور وصیت کے رنگ میں ہی ہوگی.
ایک دفعہ کراچی روانگی کے وقت آپ نے لوگوں کو مخاطب کرکے"سورہ العصر"تلاوت فرمائی اور یہ فرمایا کہ ہمارے بزرگ ایسا ہی کرتے تهے.رخصت ہوتے وقت "سورہ العصر"کی تلاوت فرماتے اور پیغام دے جاتے کہ اس میں غور وفکر کرتے رہو.حضرت امام شافعی رح فرمایا کرتے تهے کہ اگر قرآن میں سورہ العصر کے علاوہ کچھ بهی نازل نہ ہوتا تو صرف یہی ہماری ہدایت کے لیے کافی تهی.

کالج میں بیان:

ایک دفعہ راقم الحروف کے کالج میں حضرت جی دامت برکاتہم عالیہ نے بڑا ہی مؤثر بیان کیا.فرمایا:مختلف مواقع پر لوگوں کو دیکھ کر ان کی ضرورت کے حساب سے اصلاحی بات کی جاتی ہے.کیا یہ بیان کسی نے ٹیپ کیا ہے؟ راقم الحروف نے عرض کیا:حضرت! فلاں فلاں نے آپ کے بیان ریکارڈ کیے ہیں اور لوگوں کو سنا رہے ہیں. اس پر راقم کو خوب ڈانٹ پڑی کہ تمہیں خود یہ کام کرنا چاہیے تها.اس سے اصلاح بهی ہوئی اور آئندہ کے لئے سبق بهی ملا کہ جو بات پوچهی جائے اس کاTo The Pointجواب دیا جائے.اگلی پچهلی باتیں ساتھ ملانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے.
حضرت جی کا ہر بیان موقع کی مناسبت سے ہوتا ہے.اگر آپ اعلی تعلیم یافتہ لوگوں سے خطاب فرما رہے ہوں تو انداز بیان کچھ اور ہوتا ہے.زیادہ الفاظ انگلش کے استعمال کرتے ہیں اور جدید تحقیقات کو بهی موضوع سخن بناتے ہیں. اگر عوام الناس کے سامنے بیان ہو تو پهر انداز مختلف ہوتا ہے.اصلاحی واقعات کے رنگ میں نصیحت کرتے ہیں، تاکہ عام فہم ہو اور ہر کسی کی سمجھ میں آسکے.اگر علماء کرام سے مخاطب ہوں تو قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ کثرت سے استعمال فرماتے ہیں. مختصر یہ کہ انداز بیان بهی دلکش اور شیریں ہے اور واقعات اور اشعار کا استعمال بهی موقع محل کے مطابق ہوتا ہے.ایسا لگتا ہے گویا کہ یہ شعر شاعر نے اسی موقع کےلئے کہا تها.ایک مرتبہ کراچی میں آپ نے الوداعی بیان کیا اور اس کے شروع میں یہ شعر پڑها تو مجمع تڑپ اٹها:

غنیمت سمجھ لو مل بیٹهنے کو
جدائی کی گهڑی سر پر کهڑی

دانشمندی:

رب ذوالجلال کی نعمتیں دن رات مخلوق پر موسلادهار بارش کی طرح برستی رہتی ہیں انکا احاطہ بڑا ہی دشوار ہے.ان نعمتوں میں سے ایک نعمت عظمی دانشمندی بهی ہے.اگر کسی انسان کو یہ مل جائے تو نہایت خوش بختی کی دلیل ہے.خالق ارض وسما کا ارشاد ہے:
ترجمہ: "جس کو دانشمندی اور دانائی مل جائے اسکو خیر کثیر مل گئی."(البقرہ:269 )
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ترجمہ: "مومن کی فراست سے ڈرو، پس وہ اللہ کے نور سے دیکهتا ہے."(ترمذی، رقم:3127)
اگر آپ کی دانشمندی پر لکها جائے تو کتاب زندگی کے کئی جزبن سکتے ہیں، تاہم نمونہ کے طور پر ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے:
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے ایک دوست کے ساتھ سفر کررہے تهے.وہ فرمانےلگے کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ شیخ کی کیا خصوصیت ہے؟ راقم الحروف نے عرض کیا کہ آپ ہی فرمائیں! فرمانے لگے:دانشمندی اور عقلمندی. مزیدعرض کیا:اگر دانشمندی کے ساتھ مضبوط نسبت بهی شامل ہوجائے تو پهر تو سونےپر سہاگہ والی بات ہوجاتی ہے.
حضرت مولانا گل رئیس صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ آزاد ریاستوں کے سفر کے دوران جگہ جگہ آپ کی دانش اور فہم کے واقعات نظر آتے ہیں. آپ نے سفر کے شروع میں ہی بتا دیا:جب بهی کوئی آپ لوگوں سے میرے متعلق معلومات لینے کےلئے سوال کرے تو یہی کہنا کہ ٹورسٹ ہیں، کیونکہ سارے سفر کے دوران کےجی بی کے لوگ پیچھے لگے رہے.جب بهی وہ سوال کرتے ہم یہی جواب دیتے ٹورسٹ ، ٹورسٹ ، ٹورسٹ جس کی وجہ سے انہیں ہمارے متعلق زیادہ کهوج کرید کرنے کا موقع نہ ملا.حضرت جی دامت برکاتہم کی دانشمندی کی داد دینی پڑتی ہے.انہوں نے ہمیں ایک لفظ سکها کر سب کو ناک آوٹ کردیا.

مہمان نوازی:

مہمان نوازی آپ کے اوصاف میں سے ایک امتیازی وصف ہے.آپ کے دسترخوان کی وسعت دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ آپ حاکم وقت ہیں. روسائے وقت اور عمائدین شہر آپ کی مہمان نوازی کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں. درج ذیل فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت آپ کے پیش نظر رہتاہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو شخص اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکهتاہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے."(ترمذی، رقم:1967)
حضرت جی دامت برکاتہم کسی بزرگ کا یہ قول بهی اکثر نقل فرماتے ہیں کہ مہمان کے لئے زمین، آسمان جتنا بڑا لقمہ بهی تیار کرکے اس کے منہ میں دے دیا جائے پهر بهی اس کا حق ادا نہیں ہوتا.راقم الحروف کا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ حضرت جی دامت برکاتہم مہمانوں کے آنے سے خوش ہوتے ہیں. مہمان کی خدمت اہل خانہ نے ذمہ لی ہوئی ہے.مہمانوں کا سلسلہ دن رات چلتا رہتا ہے.اس کے علاوہ آپ کے گهر کے بچوں عثمان، یاسر اور صاحبزادہ حبیب اللہ صاحب اور صاحبزادہ سیف اللہ صاحب مہمانوں کی اتنی خدمت کرتے ہیں کہ بعض اوقات شرم محسوس ہونے لگتی ہےکہ ہم مریدین تو خدمت کرنے اور اصلاح کروانے کےلئےآتے ہیں، مہمان بن کرخدمت کروانے تو نہیں آتے، مگر حضرت جی دامت برکاتہم نے اپنے بچوں کی تربیت اس طرح سے کی ہوئی ہے کہ خصوصی مہمانوں کی خدمت کرتے ہوئے تهکتے نہیں ہیں کسی اور کو خدمت کرنے کا موقع دیے بغیر خود خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں. اللہ تعالی انکی خدمت کے اس جذبے کو قبول فرمائے

خوش طبعی:

آپ کی طبیعت میں اگرچہ خشیت الہی کا غلبہ رہتا ہے، تاہم آپ حاضرین مجلس کی دل لگی کیلئے اخیانا کوئی ایسی بات فرما دیتے ہیں کہ محفل باغ و بہار بن جاتی ہے.کبهی اپنے بچپن کا کوئی خوشگوار واقعہ سناکر سب کو محظوظ کرتے ہیں، لیکن مزاح کی اس کیفیت میں بهی"لا اقول الا الحق"کے فرمان پر عمل پیرا ہوتے ہیں. آپ کو قہقہہ لگاتے ہوئے کبهی نہیں دیکها گیا. حضرت جابر رض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں، ترجمہ:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہنسنا صرف تبسم ہوتا تها."
اتباع سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ بهی صرف تبسم فرماتے ہیں، مگر اس خوش اسلوبی کے ساتھ کہ محفل کشت زعفران کا نمونہ پیش کرتی ہے.
ایک دفعہ جهنگ سے تعلق رکهنے والے عشرت صاحب سے راقم الحروف کےگهر میں پوچها کہ لفظ عشرت مذکر ہے یا مونث ہے؟ عشرت صاحب نےعاجزی کے لئے عرض کیا کہ حضرت! ہم تو مونث ہی ہیں، کیوں کہ پنجابی زبان میں شاعر عاجزی کی خاطر اپنے لئے مونث کا صیغہ استعمال کرتے ہیں.

ووکانی ہاں تیڈے نام پچهوں نئ تے کون کمینی نوں جانداں ہائی
میڈےگل پٹہ تیڈے نام والا تے تیڈے نام کوں سنجداں ہائی

راقم الحروف جن دنوں آپ کے کچھ کتابچے چهپوا رہا تهاان دنوں آپ اسلام آباد ٹھہرے ہوئے تهے.ہر روز کام کی رفتار بتانے
اور صحبت سے فیضیاب ہونے آپ کی مجلس میں جانا ہوتا تها.
دو تین دن مسلسل آپ یہی سوال اس عاجز سے کرتے رہے:کیا باہر بارش ہورہی ہے؟ پہلے تو کچھ سمجھ نہ آیا کہ حضرت جی دامت برکاتہم نے یہ سوال کیوں پوچها ہے، لیکن غور کیا تو پتہ چلا کہ راقم الحروف کچھ اس ہیئت سے اندر داخل ہوتا تها کہ گویا باہر بارش ہورہی ہے اور عاجز بهیگتا ہوا اندر داخل ہورہا ہے.

اتباع سنت:

آپ پر اتباع سنت کا اس قدر غلبہ رہتا ہے کہ ہر چهوٹے بڑے عمل میں سنت کو پیش نظر رکهتے ہیں. اس بے ساختگی کے ساتھ سنت پر عمل پیرا ہوتے ہیں کہ وہ طبیعت کا جز لاینفک نظر آتی ہے.
یوں معلوم ہوتا ہے کہ"مکروہات شرعیہ"آپ کیلئے"مکروہات طبعیہ"بن گئی ہیں. آپ سنت کو ظاہری سراپا تک ہی محدود نہیں رکهتے، بلکہ معاملات و معاشرت میں بهی اسکا عملی نمونہ پیش فرماتے ہیں.

وہی سمجها جائے گا شیدائے جمال مصطفی
جس کا حال حال مصطفی جس کاقال قال مصطفی

آپ کو سنت نبوی سے محبت ہی نہیں بلکہ عشق ہے.ایک اتباع سنت سے محبت ہوتی ہے اور ایک اداء مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہوتی ہے. آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اداوں سے اتنی محبت ہے کہ انکی بهی اتباع فرماتے ہیں. سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا عشق اور والہانہ پن آپ کی گفتار و کردار سے بهی عیاں ہوتاہے.راقم الحروف کے نام ایک خط میں لکها:"اتباع سنت ہر معاملے میں اپنے اوپر لازم رکهیں، جس طرح بیوی میک اپ کرکے خاوند کی نظر میں جاذب بننے کی کوشش کرتی ہے اسی طرح انسان بهی ہر معاملے میں سنت پر عمل کرکے اپنے پروردگار کی نظر میں جاذب بن سکتا ہے."

خوشنما لگتا ہے یہ غازہ تیرے رخسار پر

سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور جدید سائنس پر باقاعدہ آپ کا ایک کتابچہ ہے، جو کہ سنت کی اہمیت کو واضح کرتا ہے.
ایک دفعہ چکوال میں آپ نے بیان فرمایا اور روحانی سلاسل پر روشنی ڈالی اور فرمایا:"دوسرے سلاسل میں محنت اور مجاہدہ سے انسان کی تکمیل ہوتی ہے.ہماری محنت و مجاہدہ یہ ہے کہ ہر معاملہ میں سنت پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے.ہمارے سلسلے میں تکمیل اتباع سنت سے ہوتی ہے."
ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ ایک انسان ماں باپ کی پیروی میں بهی نیک عمل کرتا ہے اور ایک اتباع سنت کی وجہ سے نیک عمل کرتا ہے اور اپنے علم، اپنی سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے بهی کوئی نہ کوئی طریقہ سنت کا اختیار کرلیتا ہے.
یا رب تیرے محبوب کی شباہت لے کر آیا ہوں
حقیقت اس کو تو کر دے میں صورت لے کر آیا ہوں

تقوی و طہارت:

آپ کی عادت شریقہ ہے کہ مستحبات کو بهی گوہر پارے سمجھ کر اپنے جسم مبارک پر مزین فرما لیتے ہیں. ہر عمل میں عزیمت کو اپنانا آپ کا شیوہ ہے.بازار کی تیار شدہ اشیا یا کسی بے نمازی کے ہاتھ کا بنا ہوا کهانا کهانے سے حتی الوسع اجتناب فرماتے ہیں.
آپ اپنے شیخ حضرت پیر غلام حبیب رح کا یہ قول نقل فرماتے ہیں:"آج کل صوفیوں نے تقوی کو محض کهانے پینے تک محدود کردیا ہے، حالانکہ تقوی کے معنی ہیں ہر اس چیز کو ترک کردینا جس کے اختیار کرنے سے تعلق باللہ میں فرق آئے."
بعض کاملین سے منقول ہے کہ متقی وہ ہے جس کے قلب کی تمناؤں کو طشتری میں ڈالیں اور سر بازار پهرائیں تو شرمندگی نہ ہو.
آپ فرماتے ہیں تقوی ولایت کے حصول کیلئے شرط ہے.
"اس کے ولی نہیں ہوتے مگر متقی لوگ"(الانفال:34)
آپ طہارت کا بہت زیادہ خیال رکهتے ہیں. استنجے کیلئے مٹی کے ڈهیلے کو ترجیح دیتے ہیں. اگر ڈهیلے نہ ملیں تو ٹائلٹ پیپر استعمال کرتے ہیں. پهر پانی بہا دیتے ہیں.
آپ سے حضرت لاہوری رح کا واقعہ سنا کہ حضرت لاہوری رح اپنی عمر کے آخری دنوں میں خود کپڑے دهونے سے قاصر ہوگئے تو دهوبی سے کپڑے دهلواتے تهے.جب کپڑے خشک ہوکر آتے تو ان کو دوبارہ پانی میں ڈال کر نچوڑتے اور فرماتے:دهوبی کپڑے صاف تو کرتا ہے پاک نہیں کرتا.
حضرت جی دامت برکاتہم عالیہ فرماتے ہیں:جو اپنے ظاہر کی چیز کپڑے اور جسم پاک نہیں رکهتا اس کا دل کیسے صاف ہوسکتا ہے؟ آپ نے اپنے شیخ کا یہ فرمان نقل فرمایا:
"جو سالک جسم کی طہارت کا خیال نہیں رکهتا وہ قلب کی طہارت کیسے حاصل کر سکتا ہے؟ ایسے شخص کا دل تو بت خانہ، بلکہ گند خانہ بن جاتا ہے."
یاد رکهیں! جس دل میں غیر اللہ کی محبت ہو وہ نجس ہے:
"مشرک لوگ ناپاک ہیں"(التوبہ : 28)
حضرت جی دامت برکاتہم عالیہ نظر اور دل کو پاک رکهنے پر بہت زور دیتے ہیں اور خود بهی اس کی زندہ مثال ہیں. کیونکہ نظر اور دل کی پاکی سے ہی خیالات پاک ہوتے ہیں. خیالات کی پاکی انسان کو نیک اعمال کی رغبت دلاتی ہے.
یہ نظر کی پاکیزگی ہی کا کمال ہے کہ جس پر پڑ جاتی ہے اس کے دل کی دنیا کو بدل کر رکھ دیتی ہے.

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

آپ کے دل کی پاکیزگی کے اثرات آپ کے بیانات سے ظاہر ہوتے ہیں، جو لمحوں میں سینکڑوں لوگوں کے قلوب میں اترتے چلے جاتے ہیں.
بقول حضرت جی دامت برکاتہم عالیہ: "قلب اگر پاک ہوگا تو عمل بهی نیک ہوگا اور قلب اگر گندہ ہوگا تو عمل بهی بد ہوگا.قلب کی پاکیزگی کے اعمال پر بڑے اثرات ہوتے ہیں. جیسا انسان کا باطن ہوتا ہے ویسی ہی اسکی سوچ ہوتی ہے اور جیسی اس کی سوچ ہوتی ہےویسا ہی اسکا عمل ہوتا ہے.قلب کی پاکیزگی اور اعمال صالحہ، دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں. یہ قلب و نظر کی پاکیزگی تبهی حاصل ہوسکتی ہے جب اللہ تعالی سے محبت ہوجائے.یہ محبت تبهی مل سکتی ہے جب محبت کرنے والوں کی صحبت سے فائدہ اٹهایا جائے، جن کے سینے عشق الہی کی تپش سے دہک رہے ہوتے ہیں، جن کی ایک ایک نظر مخاطب کا دل الٹ پلٹ کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے."

ان سے ملنے کی ہے یہی اک راہ
کہ ملنے والوں سے راہ پیدا کر

غرض تقوی و طہارت حضرت جی دامت برکاتہم عالیہ کی زندگی میں بنیادی حیثیت رکهتے ہیں. اللہ تعالی بهی تو متقیوں کو دوستی کی نوید سنارہے ہیں. اس سے بڑھ کر اور خوش نصیبی کیا ہوگی کہ ولیوں اور متقیوں کو اللہ تعالی کا دوست کہا گیا ہے
"اللہ تعالی متقیوں کا دوست ہے."(الجاثیہ :19)
نیک عمل کرنا اتنی بڑی بات نہیں ہوتی، بلکہ گناہ سے بچنا اور تقوی کی زندگی گزارنا بڑی بات ہوتی ہے، جو محض اللہ تعالی کے فضل کا ہی نتیجہ ہے.

آداب معاشرت:

آپ کی زندگی آداب معاشرت کا جیتا جاگتا نمونہ ہے.آپ اپنے شیخ حضرت پیر غلام حبیب رح کا فرمان نقل کرتے ہیں:
"حقوق اللہ اور حقوق العباد کے درمیان ایک میزان ہے، جس نے اس کو درست رکها وہ محبوب حقیقی سے واصل ہوا اور جس نے کوتاہی کی وہ محروم و مہجور ہوا."
گهر کے اندر ہوں یا باہر، اہل خانہ کے ساتھ ہوں یا روحانی محافل میں، اللہ کے دوستوں کی مجلس میں ہوں یا عام دنیا دار طبقے کے ساتھ ہوں، ہر جگہ آپ آداب کا خصوصی لحاظ رکهتے ہیں. بول چال میں، کردار وگفتار میں، اٹهنے بیٹهنے میں، دوسروں سے برتاؤ کرنے میں، خوش مزاجی میں، برہمی میں، ہر جگہ ، ہر وقت آداب اور سنت طریقے کا لحاظ رکهتے ہیں.
حضرت جی دامت برکاتہم عالیہ نے آداب معاشرت پر"باادب با نصیب"ایک کتاب لکهی ہے، جس میں تمام اہم آداب زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے.آداب سیکھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہے، لیکن اس سے بڑھ کر اگر کوئی آداب سیکھنے کا متوالا ہو تو چند دن حضرت جی دامت برکاتہم عالیہ کے ساتھ نشست وبرخاست رکهے خود کار طریقہ سے آداب کو اپناتا چلا جائے گا.آداب آپ کی زندگی کا ایسا وصف ہیں کہ دیکهنے والا محسوس ہی نہیں کرسکتا آپ آداب بجا لاتے ہیں، بلکہ آپ کی عادت شریفہ ہی ایسی سنت والی ہے.ایسے ایسے آپ کے طور اطوار ہیں کہ آداب اور سنت طریقے آپ کی طبیعت میں رچ بس گئے ہیں۔

محافظتِ وضو


 حضور اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
لَا یُخَافِظُ عَلیَ الْوُضُوْءِاِلَّامُؤْمِن
"وضو کی حفاظت تو مومن ہی کر سکتا ہے"
(صحیح ابن حبان،رقم:1037 ، جامع العلوم والحکم :1/215)
محافظت وضو پر اللہ تعالٰی نے آپ کو ایسا ملکہ عطافرمایا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔کئی دفعہ دیکھا گیا کہ آپ کا وضو گھنٹوں برقرار رہتا ہے۔آپ کی عادت شریفہ ہے کہ آپ شروع ہی سے وضو کی حفاظت فرماتے ہیں۔
آپ حضور اکرمﷺکا نام بھی بے وضو نہیں لیتے۔راقم الحروف نے ایک دفعہ عرض کیا کہ وضو رکھنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔حضرت جی دامت برکاتہم نے اس کے ضمن میں چند حکمت آمیز باتیں ارشاد فرمائیں ، جن کا راقم کو بہت زیادہ فائدہ ہوا۔
ارشاد فرمایا:
ہمیشہ ان چیزوں سے پرہیز کریں جو آپ کو گیس پیدا کرتی ہیں۔
جب قضاء حاجت کے لیے بیٹھیں تو اچھی طرح فارغ ہوں۔
جب کھانا کھائیں تو بھوک سے ذرا کم کھائیں۔پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے ، ایک حصہ پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس آنے کے لیے بھی رہنے دیں۔
سب سے اہم یہ بات کہ وضو کی محافظت کے لیے اللہ تعالٰی سے بار بار التجائیں کرتے رہیں۔
باوضو رہنا اولیا کی نشانی ہے۔اس سے بھی وضو جیسی نعمت کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔باوضو آدمی کو بے شمار روحانی فوائد کے حصول کے ساتھ ساتھ یہ آسانی بھی ہو جاتی ہے کہ اس کو وسوسے اور خیالات کم آتے ہیں۔

 کیفیتِ دعا


 آپ اکثر اپنے بیانات میں دعا کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے احادیث پیش فرماتے ہیں:
اَلدُّعَاءُ ھُوَالْعِبَادَۃُ(ابوداود ، رقم :1481،باب الدعا)
دعا ایک عبادت ہے۔
اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعبادَۃُ (ترمذی ، رقم :2271 ، باب ماجاء فی فضل الدعاء)
دعا عبادت کا مغز ہے۔
حضرت جی دامت برکاتہم دعا مانگنے پر بہت زور دیتے ہیں۔فرماتے ہیں:دعا کرنے والے تو سبھی ہوتے ہیں ، دعا مانگنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔اصل چیز ہی دل کی گہرائیوں سے مانگنا ہے۔مانگنے والے کا رُواں رُواں جب پکار پکار کر مانگ رہا ہوتا ہےتودینے والا کیوں نہیں ترس کھائے گا، کیوں نہیں دے گا؟رب تعالٰی کے دینے میں کمی نہیں ہوتی ، بلکہ ہمارے مانگنے میں کمی ہوتی ہے۔ہم دعائیں کرلیتے ہیں ، مانگتے نہیں ہیں۔جب مانگنے کی اصل حقیقت جان لیں گے تو حقیقتِ حال عرض کرنے میں مشکل نہیں رہے گی۔جب بھی مانگیں دل کھول کے مانگیں ، رب کریم مانگنے والوں سے خوش ہوتے ہیں۔آپ اپنے شیخ حضرت پیر غلام حبیبؒ کے اقوال لکھتے ہیں:
"دعا زبان کا نہیں ، بلکہ دل کا عمل ہے"
دعائیں کروائی نہیں جاتیں ، بلکہ دعائیں لی جاتی ہیں۔محض دعائیں کروانے میں اور خدمت کرکے دعائیں لینے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔دورانِ بیان حضرت جی دامت برکاتہم کی عاجزی قابلِ دید ہوتی ہے۔فیضانِ سلسلہ عالیہ کا ایسا ورود ہوتا ہے کہ مجلس میں موجود ہر شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

بیانات کے بعد جب آپ لائٹیں بند کروا کے دعا فرماتے ہیں تو عجیب و غریب مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں۔لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگتے ہیں۔شاید ہی کوئی آنکھ ایسی بچتی ہو جو اشک بار نہ ہوتی ہو۔ان لمحاتِ قبولیت میں جتنا گہرائی میں ڈوب کر مانگیں اتنا ہی دل پر سکون ہوجاتا ہے اور دعا مانگنے کا حقیقی لطف میسر آ جاتا ہے۔

 مجھے اپنی پستی کی شرم ہے تیری رفعتوں کا خیال ہے
مگر اپنے دل کا میں کیا کروں اسے پھر بھی شوق وصال ہے

 خصوصاً رمضان المبارک کی راتوں میں خصوصی بیانات اور ذکر اذکار کے بعد بڑی رقت انگیز دعائیں کرواتے ہیں۔ایسے پر اثر الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ایسی بھرپور مثالیں دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے آپ کی باطنی توجہ سے پتھر دل موم ہوجاتے ہیں اور ان کے آنسو نکل پڑتے ہیں۔
حاضرین کو رلا دینا کوئی کمال کی بات نہیں ہوتی ، نہ ہی اس نیت سے ایسا کوئی طریقہ اپنایا جاتا ہے، بلکہ دعا مانگنے کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے گویا زبان سے الفاظ نہیں نکل رہے بلکہ دل بول رہا ہے اور دل سراپا سوال بن کے مانگ رہا ہے۔اس سے سننے والوں پر بڑے حیرت انگیز اثرات مرتب ہوتے ہیں۔سننے والے کود ہی بے اختیار اس دعا کی تاثیر سے قلوب منور کرتے چلے جاتے ہیں۔
تیری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
میری دعا ہے کہ تیری آرزو بدل جائے 

یاداشت


حضرت مولانا مصطفٰی کمال مدظلہ حضرت جی کی یاداشت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حضرت جی دامت برکاتہم کے ساتھ لاکھوں سالکین منسلک ہیں۔کسی سے کئی ماہ پہلے بات کی ہوتی ہے یا کوئی مشورہ دیا ہوتا ہے ، جہاں تک پہلے بات کی ہوگی اگلی دفعہ اسی سے آگے بات کریں گے۔اتنا زبردست حافظہ ہے کہ انسان کو حیرانی ہوتی ہے۔

 کام کی تیاری


 کام کی پوری تیاری کرنے کی سنت پوری کرتے ہیں۔پھر اللہ پر توکل کرتے ہیں اور کام کو اللہ کے سپرد کردیتے ہیں۔سفر کی تیاری کا بھی پورا خیال رکھتے ہیں، مگر پھر جو بھی واقعات رونما ہوں تو تذکرہ کے طور پر بھی کوئی شکوہ شکایت نہیں کرتے۔


 کام کرنے کا انداز:


 فرمایا:جس کام کو شروع کرتا ہوں تو اس کی گہرائی میں جاتا ہوں۔ابتدا کرتے ہیں تو اختتام تک پوری توجہ سے لکھتے رہتے ہیں، پھر اور کام کی طرف توجہ نہیں دیتے۔اس کام سے فارغ ہو کر دوسرے کام کی طرف پوری توجہ دیتے ہیں۔


 خط کا واقعہ:


ایک دفعہ حضرت جی دامت برکاتہم خط پڑھ رہے تھے۔راقم الحروف نے کوئی مشورہ کرنا چاہا ، مگر حضرت نے توجہ نہیں دی ، جب خط کو پورا پڑھ لیا تو توجہ دی اور فرمایا:اب بات کریں ! کیا کہہ رہے تھے؟


تبصرہ بازی سے اجتناب 

موسم پر تبصرہ بازی:


  عموماً دیکھا گیا ہے کہ جب لوگوں کے پاس کوئی کرنے کی بات نہ ہوتو موسم پر تبصرہ بازی شروع کر دیتے ہیں کہ آج گرمی بہت ہے، سردی بہت ہے۔حضرت جی کی عادت ہے کہ کوئی تبصرہ نہیں کرتے اور ہر حال میں راضی برضا رہتے ہیں، کیونکہ تمام موسم اللہ تعالٰی کے حکم سے ہی ادلتے بدلتے رہتے ہیں اور تمام دنوں کے اندر واقعات بھی اللہ کے حکم ہی سے بدلتے رہتے ہیں اور تمام دنوں کے اندر واقعات میں اللہ کے حکم ہی سے بدلتے رہتے ہیں۔
تِلْکَ الایامُ نداو لھا بین النّاسِ(ال عمران : 140)
"یہ دن ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔"

حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ بازی:


 حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ بازی کر کے بحث و مباحثہ کرنا اور وقت ضائع کرنا آپ کا شیوہ نہیں ہے۔دعا ضرور کرتے ہیں۔جہاں تک ہو سکے اصلاح کی کوشش بھی کرتے ہیں، مگرحالاتِ حاضرہ پر بطور "تبصرہ بازی" کرکے اپنا وقت ضائع نہیں کرتے ، بلکہ دین کی خدمت کے لیے اور کلمے کو گھر گھر اور در در تک پہنچانے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔

 وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
مکمل تحریر >>