Friday, March 11, 2016

مکتوباتِ فقیر


الحمد للہ! حضرت جی دامت برکاتہم کی یہ کتاب بہت زیادہ مقبول ہے۔قلیل عرصے میں اس کے کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔پہلا ایڈیشن علیحدہ علیحدہ  کتابچوں کی شکل میں شائع کیا گیا۔دوسرا ایڈیشن خوبصورت اور مجلد صورت میں منظر عام پر آیا۔تیسرا ایڈیشن سستا اور فقیرانہ صورت میں سامنے آیا۔اس کے بعد اس کے کئی ایڈیشن آچکے ہیں۔اتنے تھوڑے وقت میں کئی ایڈیشن کا نکلنا حیران کن بات ہے۔حالانکہ ابھی باقاعدہ منظّم طریقے سے  یہ مکتوبات مارکیٹ میں نہیں لائے جا سکے۔

مکتوبات لکھتے ہوئے سالکین کے حالات کو مدنظر رکھا گیا۔اس لیے ان مکتوبات مین سب کے لیے فائدہ مند مواد موجود ہے۔مولانا سجاد ندوی نعمانی مدظلہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ ہم علماء کرام کو متاثر کرنے کے لیے " مکتوبات فقیر" ہی پڑھاتے ہیں۔جب مختلف سالکین کو لکھے گئے ان مکتوبات کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ہر ایک کا مسئلہ حل ہوگیا۔ہر ایک کو اپنے مسئلے سے متعلق مشورہ اور رہنمائی مل جاتی ہے۔یہ مکتوبات اس مصرعے کے مصداق ہیں:

میں نے جانا گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

مکتوبات میں حضرت جی دامت برکاتہم کی بہت زیادہ توجہات محسوس ہوتی ہیں۔بعض اوقات لوگوں کو صرف ایک خط سنا کر ہی روحانیت اور تصوف و سلوک کا قائل کر لیا گیا۔بعض ایسے مکتوبات ہیں کہ سینکڑوں بار پڑھے جانے کے قابل ہیں،تاکہ ہم سراپا عمل بن جائیں۔خصوصاً راقم الحروف اس خط کو تقریباً کئی دفعہ ضرور پڑھ چکا ہوگا جو آزاد ریاستوں کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے۔جناب ذوالفقار احمد صدیقی صاحب کے نام لکھے گئے خط کو کئی محفلوں میں پڑھ کر سنایا گیا۔امریکہ کے حالات و واقعات پر مشتمل خطوط میں بھی عقل مندوں کے لیے عبرت کا سامان ہے۔جناب آفاق صاحب کے والد صاحب کی تعزیت کے لیے جو خط لکھا گیاہے وہ ہمارے اسلامی لٹریچر میں شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔

شعر یاد ہوجانا دوسری بات ہے، مگر اشعار کا موقع پر یاد آنا اور برمحل استعمال کرنا یہ ذرا مشکل کام ہے،مگر یہ خصوصیت مکتوبات سے عیاں ہے۔مکتوبات میں اشعار موتیوں کی طرح جڑے ہوئے نظر آتے ہیں،مثلاً: ایک موقع پر آپ لکھتے ہیں :

"امریکہ کے نوجوان قابل رحم ہیں کہ سکون حاصل کرنے کی خاطر بے سکونی پیدا کرنے والے کاموں میں منہمک ہیں۔"

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار  کے  لونڈے سے دوا  لیتے  ہیں

فیصل آباد کے دورے کا حال جناب آزاد صاحب کو نہایت عاجزی اور انکساری سے لکھتے ہیں۔پڑھ کر طبیعت پھڑک اٹھتی ہے۔حضرت جی دامت برکاتہم نے لکھا:

"فیصل آباد میں ہر دن میں اندازاً تین سے چار پروگرام ہورہے ہیں۔الحمدللہ! مخلوق خدا کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔پورے شہر میں ہل چل سی مچ گئی ہے۔جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں تقریباً ڈیڑھ ہزار طلباء و علمائے کرام میں بیان ہوا۔من آنم کہ من دانم

بس اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام و احسان ہے۔بقول شخصے:

"ووکانی ہاں تیڈے نام پچھوں نیں تے مینوں کمینی نوں کون جاندا ہائی

میڈے گل پٹہ تیڈے نام  والا  تیڈے  نام ک وں  جگ  سنجا ندا ہائی

مختصر یہ کہ مکتوبات کی کن کن خصوصیات کو لکھا جائے:

ایں تمام خانہ آفتاب شد

کے مصداق تمام مکتوباتِ فقیر میں فقر و درویشی کے گنج ہائے گراں مایہ بیان ہوئے ہیں۔مکتوبات فقیر واقعی مکتوبات فقیر ہیں اور اسم بامسمی ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں موت سے پہلے پہلے ان مکتوبات سے پوری طرح مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور اجن اعلیٰ مقاصد کے لیے یہ مکتوبات لکھے گئے ہیں ہمیں ان کو پورا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے آمین۔

قوتِ عشق سے ہر  پست  کو  بالا  کر دے

دھر میں اسمِ محمدﷺ سے اجالا کردے

"مکتوبات فقیر" کے متعلق زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آراء:

حضرت مولانا قاسم منصور مدظلہ:

مکتوبات کے پڑھنے سے انفرادی توجہ محسوس ہوتی ہے جس سے خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے اور انفرادی اصلاح کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔اس لیے ہر کسی کو انہیں پابندی سے پڑھنا چاہیے۔

حضرت مولانا صاحبزادہ حافظ حبیب اللہ مدظلہ:

مکتوبات کے پڑھنے سے خط لکھنے کا طریقہ آگیا ہے اور خطوط کی اہمیت واضح ہوئی۔

حضرت مولانا عثمان صاحب:

مکتوبات میں انسان کی خطرناک غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔انسان کو انہیں اپنی اصلاح کی نیت سے بار بار پڑھنا چاہیے اور اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔

حضرت مولانا مفتی غلام رسول مدظلہ:

مکتوبات پڑھنے سے اپنی اصلاح کی فکر پیدا ہوتی ہے اور سلوک کی مشکل گھاٹیوں کا پتہ چلتا ہے۔

فقیر محمد اسلم نقشبندی مجددی:

جب مختلف سالکین کو لکھے گئے ان مکتوبات کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ہر ایک کا مسئلہ حل ہو گیا ہے اور ہر ایک کو اپنے مسئلے سے متعلق مشورہ اور رہنمائی مل جاتی ہے۔گویا اس مصرعے کے مصداق بن گیا:

گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

مکتوبات میں حضرت جی دامت برکاتہم کی بہت زیادہ توجہات محسوس ہوتی ہیں۔بعض اوقات لوگوں کو صرف ایک خط سنا کر ہی روحانیت اور تصوف  و سلوک کا قائل کر لیا گیا۔بعض ایسے مکتوبات ہیں کہ سینکڑوں بار پڑھے جانے کے قابل ہیں، تاکہ انسان سراپا عمل بن سکیں۔

انجم خلیل نقشبندی مجددی صاحب:

ایک ایک مکتوب کئی اسرار و رموز پر مشتمل ہے۔ہر خط کا مخاطب خود کو محسوس کیا۔مکتوبات کا مطالعہ اپنے اندر جھانکنے کی دعوت دیتا ہے۔نفس کی مکاریوں ، روحانی بیماریوں کے علاج کا طریقہ سکھاتا ہے۔ہم جیسے کم ہمت سالکوں کے لیے تو ہر مکتوب نسخۂ کیمیا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔