اولاد و امجاد


صاحبزادہ حضرت مولانا پیر حبیب اللہ  نقشبندی مجددی مدظلہ
پیدائش:
24 ستمبر1985ء جھنگ
تعلیم:
بی ایس سی،ایم  اے اسلامیات،ایم اے عربی،فاضل وفاق المدارس
حالات واقعات:
حضرت جی دامت برکاتہم کے سب سے بڑےصاحبزادے ہیں۔اسکول سے پانچ کلاسیں پاس کیں۔پھر قرآن مجید حٖفظ کرنا شروع کیا۔ پہلا مصلٰی موزمبیق میں سنایا اور تقریباً ہر سال معہد الفقیر میں مصلی سنان کی ترتیب ہے۔حیرانی ہوتی ہے کہ سارا سال مصروفیت کے باوجود بھی رمضان میں قرآن مجید سنا دیتے ہیں۔اللہ تعالٰی نے بڑی ذہانت و فطانت عطا فرمائی ہے۔طبعی لحاظ سے بڑے خوش اخلاق ہیں۔ان میں حضرت جی دامت برکاتہم کی زندگی کی جھلک نظر آتی ہے۔حضرت جی دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ میں نے حبیب اللہ کے بارے میں بہت سی دعائیں اللہ رب العزت سے مانگی تھیں،جن میں سے کئی ایک پوری ہوچکی ہیں اور جو باقی ہیں اللہ تعالٰی وہ بھی قبول فرمائے۔ایک دعا اس فقیر نے یہ بھی کی تھی کہ اے اللہ! حبیب اللہ کو وقت کا مجدد بنا دے۔اللہ تعالٰی سے پُر امید ہوں کہ وہ ہماری دعا کی ضرور لاج رکھے گا۔
ڈاکٹر محسن صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت جی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ حبیب اللہ کو اللہ تعالٰی کی طرف سے چیزوں کی فہم بہت زیادہ عطا فرمائی گئی ہے۔حبیب اللہ جوفیصلہ کرتے ہیں وہ مجھے بھی حیران کر دیتے ہیں۔اور معہد کے امور کو بہت اچھے طریقے سے سنبھالا ہوا ہے۔
ہماری بھی اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی حضرت جی دامت برکاتہم کی تمام دعاؤں کو جلد از جلد قبول فرمائے اور عزیزم روحانیت کے اعلٰی سے اعلٰی مدارج تک پہنچیں۔وما ذلک علی اللہ بعزیز
تربیت:
ایک دفعہ حضرت جی دامت برکاتہم جماعت کے ساتھ خانقاہ میں تشریف فرما تھے ۔اٹھ کر اندر تشریف لے جانے لگے تو فرمایا:ایک جماعت آپ سب لوگ ہیں اور ایک جماعت اکیلا حبیب اللہ ہے، مجھے اس کو بھی وقت دینا ہے۔وہ اپنی ہر بات مجھے بتا دیتا ہے۔اس کا فائدہ یہ ہورہا ہے کہ باہمی اعتماد بڑا زبردست ہوگیا ہے اور اصلاح کرنے کے مواقع بھی ملتے رہتے ہیں۔
انتظامی امور کی خصوصی تربیت حضرت جی دامت برکاتہم سے حاصل کی ہے، معہد الفقیر ، دارالعلوم جھنگ،جامعہ عائشہ کے انتظامات کو دیکھتے ہیں۔اس کے علاوہ معہد الفقیر میں جو بھی پراجیکٹ شروع ہوتا ہے حضرت صاحبزادہ صاحب کی زیر نگرانی ہی شروع ہوتا ہے اور تکمیل کے مراحل طے کرتا ہے۔
اجازت و خلافت
آپ کو 2009ء کے نقشبندی اجتماع کے موقع پر اجازت و خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی۔
انتظامی صلاحیتیں
راقم  الحروف نے آپ سے سوال پوچھا:
س۔۔۔۔۔انتظامی معاملات میں سب سے مشکل کام کیا ہے؟
فرمایا: انتظامی معاملات میں مختلف مزاج کے لوگوں سے کام لینا اور انہیں چلانا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔
س۔۔۔۔۔انتظامی معاملات میں سے سے آسان کام کیا ہے؟
ارشاد فرمایا: سب سے آسان کام یہ ہے کہ آپ کے پاس بہت سے پیسے ہوں بس لوگوں کو دیتے جائیں پھر لوگ راضی رہتے ہیں۔
س۔۔۔۔۔کسی منتظم کی کامیابی کا معیار کیا ہے؟
فرمایا کہ اس کے زیر انتظام ادارہ بخوبی چل رہا ہو اور دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہو۔
ملکوں کے دورے
حضرت جی دامت برکاتہم کی معیت اور صحبت میں رہ کر مختلف ملکوں کے اسفار کیے، کیونکہ سفر ہی میں انسان کو سب سے زیادہ سیکھنے کے مواقع نصیب ہوتے ہیں۔ان میں عرب امارات، امریکہ، انڈیا، سعودی عرب، ساؤتھ افریقہ، شام، اردن، زیمبیا،ملاوی،تنزانیہ،زنجیبار، کینیڈا، موزمبیق وغیرہ شامل ہیں۔
انڈیا کا یادگار سفر:
صاحبزادہ صاحب نے انڈیا کے حالات سناتے ہوئے فرمایا:انڈیا کا سفر بڑا زبردست سفر تھا۔ہر ہر چیز سے سیکھنے کا موقع ملتا تھا۔اس سفر میں ہر ہر موقع پر حضرت جی دامت برکاتہم کے ساتھ رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔پریکٹیکل طور پر تصوف و سلوک کو سیکھنے کا موقع ملا۔نسبت کی برکات کو عملی طور پر مشاہدہ کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔
انڈیا کی آفیشل رپورٹ کے مطابق دو حضرات اس سے پہلے  گزرے ہیں، جنہوں نے پورے انڈیا پر اثرات ڈالے ، ایک حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ ، دوسرے سید احمد شہیدؒ اور اب حضرت جی دامت برکاتہم نے پورے انڈیا کے لوگوں پر اثرات ڈالے اور لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بدل گئیں۔
جن جن شہروں میں حضرت جی کی صحبت میں جانا نصیب ہوا وہ یہ ہیں:بمبئی، دہلی،حیدر آباد دکن،گجرات،میل و شارم ، دیوبند، بنگلور۔
زیمبیا کے 3 سال کے سفر:
حضرت جی دامت برکاتہم کی صحبت و معیت میں اعتکاف کے لیے 3 دفعہ زیمبیا جانا نصیب ہوا۔جس کی وجہ سے بہت سے روحانی فوائد حاصل ہوئے۔جہاں پر حضرت جی دامت برکاتہم کے بہت سے خلفاء اور متعلقین سے ملنے کا موقع ملا۔سفر میں بہت سی چیزیں سیکھنے کو ملتی ہیں۔اگر سفر اللہ کی رضا کے لیے ہو تو وہ سونے پر سہاگہ کے مانند بن جاتا ہے۔
عرب امارات کے اسفار:
عرب امارات میں حضرت جی دامت برکاتہم کی صحبت اور معیت میں کئی دفعہ اسفار کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔اور جہاں مختلف پروگراموں میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔جس میں بیرون ملک روس انڈیا وغیرہ سے بھی جماعتیں ترتیب کے لیے آتی رہتی تھیں۔مختلف گھروں میں ذکر و فکر کی مجالس منعقد ہوتیں، جن سے بہت سے لوگوں کو فوائد حاصل ہوتے۔۔
شیخ کی معیت میں حج و عمرہ:
1996ء میں حضرت جی دامت برکاتہم کی صحبت اور معیت میں حج کی سعادت حاصل ہونی شروع ہوئی۔حج کے دنوں میں خصوصی طور پر حضرت جی دامت برکاتہم کی مجالس سے فیض اٹھاتے رہے۔حج اور عمرہ کا مکمل طریقہ بھی حضرت جی دامت برکاتہم نے ہی سکھایا۔اس کے علاوہ نماز کی حقیقت اور عملی ٹریننگ اور ادائیگی کا طریقہ حضرت جی دامت برکاتہم سے سیکھا۔
مدینہ شریف میں ہمیشہ حضرت جی دامت برکاتہم کی معیت میں حاضری ہوئی اور خصوصاً مواجہہ شریف میں حضرت جی دامت برکاتہم کی معیت میں حاضری دی اور حضرت جی نے خصوصی شفقت فرماتے ہوئے حضورﷺ کی بارگاہ میں پیش فرمایا۔کیونکہ یہ ایسی بارگاہ ہے کہ بڑے بڑے  اولیاء اللہ بھی حاضری دیتے ہوئے کانپتے ہیں۔
ادب گاہیت زیرِ آسماں از عرش نازک تر است
نفس  گم  کردہ  می  آید  جنیدؒ  و  بایزید  ایں  جا
بعض لوگ جو کئی کئی سالوں سے حج کرتے رہے ہیں، جب حضرت جی دامت برکاتہم کے ساتھ حج کیا تو انہیں بھی اپنی بہت سی غلطیوں کا احساس ہوا اور انہوں نے حج کو باقاعدہ عملی طور پر سیکھا اور یہ پکار اٹھا:
یہ حسرت رہ گئی  پہلے سے  حج کرنا  نہ  سیکھا تھا
کفن بر  دوش  جا  پہنچے  ،  مگر  مرنا  نہ  سیکھا تھا
یہ  دیوانے اگر پہلے سے کچھ  ہوشیار ہو جاتے
حرم میں بن کے مُجرم صاحبِ اسرار ہوجاتے
اخلاق و عادات:
کسی انسان کی شخصیت کی پہچان کے لیے اس کے اخلاق و عادات کو دیکھا جاتا ہے۔اس لیے پنجابی میں کہتے ہیں:"یا  راہ  پیا جانیے یا واہ پیا جانیے" یعنی کسی کے ساتھ سفر کرنے میں اس کے اخلاق کا پتہ چلتا ہے یا کسی کے ساتھ ڈیلنگ کرنے میں اس کے اخلاق کا پتہ چلتا ہے۔روزمرہ حالات میں صاحبزادہ صاحب سے مختلف لوگوں کی ڈیلنگ ہوتی رہتی ہے۔حصوصاً اساتذہ کرام اور طلبا آپ کی "منیجمنٹ" سے بہت خوش ہیں۔اللہ تعالٰی اور زیادہ اعلٰی اخلاق عطا فرمائے، بلکہ اخلاق محمدی کا بہترین نمونہ بنائے۔
صبر و تحمل:
رسالہ قشیریہ میں لکھا ہے کہ اعلیٰ اخلاق کا سب سے بڑا نمونہ صبر و تحمل ہے۔آپ کی شخصیت میں یہ چیز بدرجہ اتم موجود ہے۔کئی واقعات ایسے ہیں جن میں آپ نے انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔جس کی وجہ سے دوسروں کو ندامت محسوس ہوئی اور خودبخود ان کی اصلاح ہوگئی۔صبر و تحمل ایک ایسی خوبی ہے جو بندے کی شخصیت کو بڑا پروقار نا دیتی ہے۔صاحبزادہ صاحب میں یہ خوبی بہت زیادہ عیاں ہے۔جس کی وجہ سے آپ کی شخصیت منشور کی طرح چمکتی ہوئی نظر آتی ہے۔
محنت و مجاہدہ:
آپ بھی اپنے عظیم والد ماجد کی طرح محنت و مجاہدے کے عادی ہیں۔کئی کئی گھنٹے ادارے کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔کئی کئی گھنٹوں کے لمبے اسفار بھی کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے محنت و مجاہدہ آپ کی طبیعت کا خاصہ بن گیا ہے۔ہمارے حضرت جی دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ خوش بختی محنت کی اولاد ہے۔
حضرت مولانا صاحبزادہ حبیب اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ پانچویں کلاس کے بعد حفظ کیا۔دارالعلوم  جھنگ میں قاری محمد اکرم صاحب سے حفظ قرآن مکمل کیا۔حفظ مکمل کرنے کے بعد آٹھویں کلاس کی تیاری شروع کی،لیکن دس دن بعد ہی حج پر جانا ہوا۔جس کی وجہ سے اس سال آٹھویں کلاس کا امتحان نہ دے سکا۔اس کے بعد چچا جان کے مشورہ سے دسویں کلاس کی تیاری شروع کی اور ایک سال میں تیاری کرکے میٹرک کا امتحان دیا اور الحمدللہ! پورے اسکول میں ٹاپ کیا اور "اے پلس" گریڈ حاصل کیا۔چچا جان اس واقعہ کو لڑکوں کی ترغیب کے لیے بار بار سنایا کرتے ہیں۔
صبر و شکر:
انسان کی شخصیت میں صبر و شکر نمایاں اوصاف میں سے ہے۔یہ صبر و شکر کی صفات صاحبزادہ صاحب میں بہت زیادہ مشادہ کی جاتی ہیں۔جس کی وجہ سے آپپ کی شخصیت میں زبردست قسم کا نکھار پیدا ہو رہا ہے۔
دانشمندی:
فہم و فراست اور دانشمندی آپ کا نمایاں وصف ہے۔اتنی چھوٹی عمر میں اتنے بڑے ادارے کے بڑے بڑے فیصلے کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔آپ ادارہ معہد الفقیر کے "جنرل منیجر" کی حیثیت رکھتے ہیں، مگر آپ کی عمر ابھی صرف 27 سال ہے۔آپ کے فیصلوں کو دیکھا جائے تو کسی بڑے میچور اور تجربہ کار منتظم کی جھلک نظر آتی ہے۔اسی وجہ سے حضرت جی دامت برکاتہم نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ آپ کے فیصلوں سے بعض اوقات میں بھی حیران رہ جاتا ہوں۔
احساسِ ذمہ داری:
احساسِ ذمہ داری ہی کسی ادارے کے منتظم کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے ادارہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔یہ احساسِ ذمہ داری صاحبزادہ صاحب میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ہر چھوٹے بڑے کام کو بڑی ذمہ داری سے انجام دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے معہد الفقیر دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔
صاحبزادہ حضرت مولانا پیر سیف اللہ نقشبندی مجددی مدظلہ
پیدائش:
25 ستمبر 1985ء جھنگ
تعلیم:
بی اے ، ایم اے عربی، ایم اے اسلامیات،ٖفاضل وفاق المدارس
حالات و واقعات:
حضرت جی دامت برکاتہم کے دوسرے صاحبزادے ہیں۔بڑے ہی جوش و جذبے والے ہیں۔انشاء اللہ حضرت جی دامت برکاتہم کی صحبت بابرکت سے یہ بھی گلِ نایاب بنیں گے۔بہت سے سفروں میں حضرت جی دامت برکاتہم کے ساتھ رہے ہیں۔آپ کی عادت  حضرت جی دامت برکاتہم کی باتوں کو نوٹ کرنے کی ہے۔لکھنے پڑھنے کا بہت عمدہ ذوق ہے۔ایک دفعہ حضرت جی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ گھر والے بتاتے ہیں کہ مطالعہ میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ کئی دفعہ کھانا پڑا رہتا ہے اور وہ کتاب پڑھنے میں گم رہتے ہیں۔
تربیت:
تعلیم کے ساتھ ساتھ اگر تربیت بھی حاصل ہوجائے تو انسان کی زندگی میں زبردست قسم کا نکھار پیدا ہوجاتا ہے۔تعلیم کے ذریعے اگر علم آتا ہے تو تربیت کے ذریعے عمل اور اخلاص کی توفیق ملتی ہے۔الحمدللہ! ہمارے حضرت جی دامت برکاتہم نے صاحبزادہ صاحب کو تعلیم و تربیت دونوں مراحل میں سے گزارا ہے۔جس کی وجہ سے صاحبزادہ صاحب میں زبردست صلاحیتیں اور استعداد پیدا ہوگئی ہ۔چھوٹی سی عمر میں کئی کتابوں کے مصنف بن گئے ہیں۔علم کا خصوصی ذوق حاصل ہوگیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنی تربیت کے سلسلے میں بھی بہت زیادہ فکر لگ گئی ہے۔حضرت جی دامت برکاتہم کے سفروں میں بہت زیادہ تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔اس تربیت میں انہوں نے حضرت جی کے ملفوظات کو نوٹ بھی کیا ہے، بلکہ دوسروں سے بھی پوچھ پوچھ کر مختلف واقعات کو لکھا ہے۔حضرت جی دامت برکاتہم کے ساتھ والہانہ عشق و جنون ہے جس کی وجہ سے نسبت جیسی نعمت نصیب ہوگئی ہے۔آپ حضرت جی کے سفر و حضر کے بہت سے واقعات کے امین ہیں۔اللہ کرے کہ جلد از جلد آپ ان واقعات کو صفحۂ قرطاس پر بھی لے آئیں، تاکہ سالکین کے لیے درد دل کا سامان بن سکیں۔
اجازت و خلافت
آپ کو 2009ء کے نقشبندی اجتماع کے موقع پر اجازت و خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی۔
حضرت جی کی معیت میں اسفار:
حضرت جی دامت برکاتہم کی معیت اور صحبت میں رہ کر مختلف ملکوں کے اسفار کیے، کیونکہ سفر ہی میں انسان کو سب سے زیادہ سیکھنے کے مواقع نصیب ہوتے ہیں۔ان ملکوں میں  عرب امارات،امریکہ،انڈیا،سعودی عرب،ساؤتھ افریقہ،شام،اردن،زیمبیا،ملاوی،تنزانیہ،زنجیبا،کینیڈا،موزمبیق وغیرہ شامل ہیں۔
لیبیا کی کانفرنس میں شرکت:
لیبیا میں تصوف کے موضوع پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔اس میں حضرت جی دامت برکاتہم کے ساتھ صاحبزادہ سیف اللہ صاحب بھی تشریف لے گئے۔دنیا کے بہت سے مشائخ کے حالات کو دیکھا۔کانفرنس میں حضرت جی کے ساتھ ساتھ رہنے کے مواقع نصیب ہوئے۔بہت سی چیزوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، کئی واقعات راقم الحروف کو بھی سنائے،جس کی وجہ سے دلی خوشی ہوئی کہ یہ ہمارے حضرت کی باتوں کو بڑی ذمہ داری سے نوٹ کرتے ہیں۔
انڈیا کا یادگار سفر:
انڈیا کے سفر کے دوران صاحبزادہ صاحب نے مختلف نجی مجالس کے نوٹس بھی لیے ہیں۔سفر کے حالات بھی لکھے ہیں۔مختلف لوگوں سے تاثرات بھی معلوم کیے ہیں۔امید ہے کوئی موقع آئے گا کہ وہ ان سب چیزوں کو صفحۂ قطاس کی زینت بنائیں گے۔صاحبزادہ صاحب نے انڈیا کے حالات سناتے ہوئے  فرمایا:انڈیا کا سفر بڑا زبردست سفر تھا۔ہر ہر چیز سے سیکھنے کا موقع ملتا تھا۔اس سفر میں ہر ہر موقع پر حضرت جی دامت برکاتہم کے ساتھ رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔پریکٹیکل طور پر تصوف و سلوک کو سیکھنے کا موقع ملا۔نسبت کی برکات کو عملی طور پر مشاہدہ کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔
عرب امارات کے اسفار:
عرب امارات میں حضرت جی دامت برکاتہم کی صحبت اور معیت میں کئی دفعہ اسفار کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔اور جہاں مختلف پروگراموں میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔جس میں بیرون ملک روس انڈیا وغیرہ سے بھی جماعتیں ترتیب کے لیے آتی رہتی تھیں۔مختلف گھروں میں ذکر و فکر کی مجالس منعقد ہوتیں، جن سے بہت سے لوگوں کو فوائد حاصل ہوتے۔صاحبزادہ صاحب ہر مجلس میں حاضر ہوتے اور پوری توجہ سے باتوں کو سنتے اور نوٹ کرنے کی کوشش کرتے۔
زیمبیا کے اسفار:
حضرت جی دامت برکاتہم کی صحبت و معیت میں اعتکاف کے لیےکئی دفعہ زیمبیا جانا نصیب ہوا۔جس کی وجہ سے بہت سے روحانی فوائد حاصل ہوئے۔جہاں پر حضرت جی دامت برکاتہم کے بہت سے خلفاء اور متعلقین سے ملنے کا موقع ملا۔سفر میں بہت سی چیزیں سیکھنے کو ملتی ہیں۔اگر سفر اللہ کی رضا کے لیے ہو تو وہ سونے پر سہاگہ کے مانند بن جاتا ہے۔زیمبیا وہ ملک ہے جہاں  صاحبزادہ صاحب کے سسرال بھی ہیں اسل لیے زیمبیا کے پروگراموں میں بہت کثرت سے حضرت جی کے ساتھ ہوتے ہیں،بلکہ افریقہ کے کئی اور ممالک کے دوروں میں بھی ساتھ رہے ہیں۔
شیخ کی معیت میں حج و عمرہ:
1996ء میں حضرت جی دامت برکاتہم کی صحبت اور معیت میں حج کی سعادت حاصل ہونی شروع ہوئی۔حج کے دنوں میں خصوصی طور پر حضرت جی دامت برکاتہم کی مجالس سے فیض اٹھاتے رہے۔حج اور عمرہ کا مکمل طریقہ بھی حضرت جی دامت برکاتہم نے ہی سکھایا۔اس کے علاوہ نماز کی حقیقت اور عملی ٹریننگ اور ادائیگی کا طریقہ حضرت جی دامت برکاتہم سے سیکھا۔
مدینہ شریف میں ہمیشہ حضرت جی دامت برکاتہم کی معیت میں حاضری ہوئی اور خصوصاً مواجہہ شریف میں حضرت جی دامت برکاتہم کی معیت میں حاضری دی اور حضرت جی نے خصوصی شفقت فرماتے ہوئے حضورﷺ کی بارگاہ میں پیش فرمایا۔کیونکہ یہ ایسی بارگاہ ہے کہ بڑے بڑے  اولیاء اللہ بھی حاضری دیتے ہوئے کانپتے ہیں۔
ادب گاہیت زیرِ آسماں از عرش نازک تر است
نفس  گم  کردہ  می  آید  جنیدؒ  و  بایزید  ایں  جا
حفظِ قرآن:
آپ نے دارالعلوم جھنگ میں قاری محمد اکرم صاحب سے حفظ قرآن مکمل کیا۔دورانِ حفظ قرآن حکیم کا ایک ایک پاؤ حفظ کر لیا کرتے تھے۔جب قرآن حکیم مکمل ہونے والا تھا تو حرم شریف میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔اس وقت ایک ایک پارہ بھی حفظ کر لیتے تھے۔پابندی سے تراویح میں سناتے رہتے ہیں۔اور زیمبیا میں بھی بعض اوقات نفلوں میں سناتے ہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن حکیم کا عشق و جنون نصیب فرما کر سراپا قرآن بنا دیں۔آمین
اخلاق و عادات
عاجزی:
حضرت مولانا مصطفیٰ کمال صاحب فرماتے ہیں کہ صاحبزادہ صاحب کے اندر عاجزی کوٹ کوٹ  کر بھری ہوئی ہے۔آپ کو جہاں سونے کی جگہ مل جائے، کمبل ، تکیہ ہو یا نہ ہو آپ سو جاتے ہیں۔سفر کے دوران جو بھی کھانے کو مل جائے کھا لیتے ہیں۔سفر میں دوسروں کا بہت خیال رکھتے ہیں کہ دوسروں کو تکلیف تو نہیں ہو رہی۔
صبر و تحمل:
انسان کے اکلاق میں صبر و تحمل سب سے اعلیٰ اخلاق ہے۔آپ کو اس چھوٹی سی عمر میں ہی یہ اخلاق نصیب ہوگیا ہے۔کئی موقعوں پر آپ کا صبر و تحمل دیکھنے کا موقع ملا۔صبر و تحمل ایسی صفت ہے جو ہر قسم کے معاملات میں بندے کو سرخرو کرتی ہے۔اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں میں صبر و تحمل جیسی اعلیٰ صفت پیدا فرمائے۔
متحرک شخصیت:
آپ کی شخصیت بڑی متحرک ہے۔جس کی وجہ سے آپ تھوڑے سے عرصے میں بہت سے کام کر لیتے یں۔آپ میں محنت و مجاہدہ کا ذوق و شوق ہے،جس کی وجہ سے آپ اپنے ہم عمروں میں بازی لے گئے ہیں۔
علم کا ذوق و شوق:
آپ کی طبیعت میں علم کا زبردست تجسس پایا جاتا ہے۔چھوٹی عمر ہی سے حضرت جی دامت برکاتہم سے محتلف قسم کے سوالات پوچھتے رہتے ہیں۔آپ نے بہت زیادہ علم حضرت جی دامت برکاتہم سے پوچھ پوچھ کر حاصل کیا۔حضرت جی کے جوابات سے آپ کی تشفی ہوجاتی تھی۔حضرت جی کی صحبت کی برکت ہی نے آپ کے اندر علم کا جنون پیدا کیا۔
زمانہ  عقل  کو  سمجھا  ہوا  ہے  مشعلِ  راہ
کسے خبر کہ جنون بھی ہے صاحب ادراک
تصنیف کردا کتب
کمالاتِ امام ابوحنیفہ:
کمالات امام بو حنیفہ  ایک شاہکار کتاب ہے۔صاحبزادہ صاحب کی عمر کے حساب سے ذرا اوپر کتاب ہے۔ایک دفعہ حضرت جی دامت برکاتہم کی صحبت میں راقم الحروف بیٹھا تھا،کمالات امام ابو حنیفہ کا تذکرہ چل نکلا۔عاجز نے عرض کیا کہ کمالات ِ امام ابو حنیفہ جیسی کتاب صاحبزادہ صاحب کی عمر کے لحاظ سے اونچی کتاب ہے۔حضرت جی نے فرمایا:بات تو ایسی ہی ہے۔اردو لکھی گئی کتابوں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو کمالاتِ امام ابوحنیفہ ایک منفرد کتاب ہے۔اس کی تربیت ، اس کے واقعات اور اس کا مواد بہت زیادہ فائدہ مند ہے۔اللہ تعالٰی اسی طرح کی اور کتابیں لکھنے کی بھی صاحبزادہ صاحب کو توفیق ارزادنی عطا فرمائے۔
وجدانِ فقیر:
وجدان فقیر حضرت جی دامت برکاتہم کی پسندیدہ حمد و نعت ، نظموں اور مراقبے میں پڑھے جانے والے اشعار کا مجموعہ ہے۔لوگوں کے لیے بہت زیادہ فائدہ مند ہے۔کیونکہ جو اشعار مراقبے میں پڑھے جاتے ہیں  لوگ انہیں یاد کرنے کے لیے تحریری شکل میں لینے کا تقاضا کرتے تھے۔صاحبزادہ صاحب کو اس کا احساس پیدا ہوا اور انہوں نے بڑے تھوڑے عرصے میں اس کتاب کو اچھی طرح ترتیب دے کر سالکین کی خدمت میں پیش کردیا۔
معلوماتِ جنت البقیع:
جنت البقیع کے اندر جا کر بہت کم پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دوسرے مشائخؒ کی قبور کہاں واقع ہیں، مگر اس کتاب نے جنت البقیع کے بارے میں زبردست قسم کی معلومات مہیا کی ہیں۔جس کی وجہ سے صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبور پر حاضری دینے اور فاتحہ پڑھنے میں بڑی سہولت ہوگئی ہے۔اللہ تعالیٰ اس کتا کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچائے اور فائدہ مند بنائے۔
بے داغ جوانی:
یہ کتابچہ نوجوانوں کے لیے انمول تحفہ ہے۔جس میں نوجوانی کے گناہوں سے بچنے کے واضح اشارے ملتے ہیں۔یہ کتاب ہر ایک نوجوان کو پڑھنی چاہیے،تاکہ وہ اپنی جوانی کی مؤثر انداز میں حٖفاظت کر سکے۔اس لیے اردگرد کا ماحول ایسا نازک ہوگیا ہے کہ جوانی کو بچانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔اس لیے اقبالؒ نے دعائیہ انداز میں کہا ہے:
حیا نہیں  ہے  زمانے  کی  آنکھ  میں  باقی
خدا کرے کہ تیری جوانی رہے  بے  داغ
ڈپریشن کا سستا علاج:
بینادی طور پر اس کتاب میں مختلف مزاحیہ اور نصحیت آمیز لطائف کو اکٹھا کیا گیا ہے۔یہ کتاب صاحبزادہ صاحب کی لڑکپن کی عمر کی ہے،مگر اس کے باوجود اس کتاب میں بڑی  فائدہ مند باتیں لکھی ہیں،جو کہ ڈپریشن کو کم کرکے طبیعت کو تھوڑی دیر کے لیے دوسری سوچوں میں منہمک کر دیتی ہے۔
لائبریری:
صاحبزادہ صاحب نے اپنی لائبریری کو ترتیب دے کر حضرت جی دامت  برکاتہم کو دیکھنے کی دعوت دی۔حضرت جی نے ارشاد فرمایا کہ صاحبزادہ سیف اللہ نے زبردست لائبریری بنائی ہے۔اگر مجھ سے کوئی پوچھے  کہ آپ کی لائبریری کہاں ہے؟تو صاحبزادہ سیف اللہ کی لائبریری کی طرف اشارہ کرکے کہوں گا کہ یہ میری لائبریری ہے۔ایک دفعہ فرمایا: فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ
واقعی !صاحبزادہ صاحب نے بڑی نایا کتب کا ذخیرہ اکٹھا کیا ہے۔جو کہ قابلِ دید ہے۔کتب کا ذخیرہ ہی اکٹھا نہیں کیا، بلکہ کتب کا مطالعہ بھی ذوق و شوق سے جاری رکھتے ہیں۔




0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔