Tuesday, March 22, 2016

پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی مدظلہ کا اندازِ تربیت

اس کتاب میں حضرت جی دامت برکاتہم کے تربیت کے انداز کو کھولا گیا ہے۔جس کی خاطر آپ کے مختلف خلفائے کرام سے انٹرویو لیے گئے ، تاکہ آپ کے تربیت یافتہ افراد سے حضرت جی کی تربیت کرنے کا انداز معلوم کر سکیں۔اس میں انڈیا کے سفر کے مختلف تاثرات کو بھی شامل کیا گیا ہے ، تاکہ یہ تحقیق کی جا سکے کہ انڈیا اور دیوبند کے علمائے کرام حضرت جی کے بارے میں کیا تاثرات رکھتے ہیں،تاکہ پاکستان اور باقی دنیا کے علمائے کرام بھی زیادہ سے زیادہ حضرت شیخ سے فائدہ اٹھا سکیں۔مجموعی طور پر اس کتاب سے حضرت جی کے مختلف تربیت کے انداز اور واقعات کا پتہ چلتا ہے جس سے دوسروں کو بھی اصلاح و تربیت کروانے کا ذوق و شوق پیدا ہوتا ہے اور ان واقعات کو پڑھ کر کئی لوگوں کی تو اصلاح بھی ہوجاتی ہے۔اس کتاب کے مختصر وقت میں دو ایڈیشن چھپ چکے ہیں اور تیسرا ایڈیشن تیاری کے مراحل میں ہے۔اس کی دوسری جلد بھی چھپ چکی ہے۔
مکمل تحریر >>

حیا و پاکدامنی


یہ کتاب خصوصاً کالجز، یونیورسٹیز اور دنیاوی تعلیم حاصل کیے ہوئے لوگوں کے لیے لکھی گئی ہے۔جس کی وجہ سے اس طبقہ کے سینکڑوں لوگوں کی اصلاح ہو رہی ہے۔اس کتاب کا اصل منشا یہ ہے کہ معاشرے میں حیا و باکدامنی پھیلے اور ہر فرد شرم و حیا کا مجمسہ نظر آئے۔

الحمدللہ ! مصنف اس مقصدمیں کامیاب ہوئے ہیں اور بہت سے لوگوں نے یہ کتاب پڑھ کر توبہ کی ہے، اپنے آزادانہ خیالات کو درست کیا ہے اور پھر یہی لوگ دوسروں کے خیالات کو درست  کررہے ہیں۔

اس کتاب میں بعض مناظر ایسے آئے ہیں کہ جو معاشرے میں پھیلی ہوئی بے حیائی کی عکاسی کر رہے ہیں۔وہ چور دروازے جن کے ذریعے بے حیائی اور بدکاری کے بڑے بڑے دروازے کھلتے ہیں ان کی نشاندہی کی گئی ہے۔ان کی شدت کو سمجھانے کے لیے دل پر  پتھر رکھ کر وہ واقعات نمونہ از خروارے کے طور پر لکھے گئے ہیں، تاکہ ہم اپنے معاشرے کے تعفن اور بے غیرتی کا کچھ تو اندازہ لگا سکیں، تاکہ ان واقعات کے مواقع ہی ختم کر دیے جائیں۔ایسے خوفناک واقعات کی نوبت ہی نہ آئے، لیکن بعض لوگوں نے ان واقعات کو غلط تناظر میں دیکھا ہے اور صاحب ِ تصنیف کی کڑھن اور دلسوزی کا اندازہ نہیں لگایا اور یہ بھی اندازہ نہیں لگایا کہ یہ کتاب کن لوگوں کے لیے لکھی گئی ہے۔یہ روحانی مریضوں اور بیماروں کے لیے لکھی گئی ہے۔

کتاب علماء کرام، متقی اور پر ہیز گار لوگوں کے لیے نہیں لکھی گئی، بلکہ یہ ان مریضوں اور بیماروں کے لیے لکھی گئی ہے جو اندر ہی اندر شرم و حیا کی بہت سی سرحدیں عبور کر چکے ہیں۔جیسا کہ صاحب تصنیف نے اپنی کتاب"لاہور سے تاخاک بخارا و سمرقند" کے شروع میں لکھا ہے کہ علمائے کرام کے لیے نہیں لکھا گیا، کیونکہ وہ تو ماشاء اللہ خود بہت کچھ جانتے ہیں۔یہ کتاب بھی عام پبلک کے لیے لکھی گئی ہے جو کہ اپنی بے احتیاطی سے ٹی وی، کیبل،ڈش،انٹرنیٹ،سیل فون کے غلط استعمال میں مبتلا ہو کر حیا باختہ چیزوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کتاب کے ذریعے سے ایسے طبقے کی اصلاح فرما دے جو کہ مدرسوں اور مسجدوں میں بہت کم آتے ہیں۔
مکمل تحریر >>

قرآن مجید کے ادبی اسرار و رموز


حضرت جی دامت برکاتہم نے یہ کتاب خاص طور پر علماء کرام کے لیے لکھی ہے، مگر قرآن مجید کا ذوق و شوق رکھنے والے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اس کتاب کے پڑھنے کے بعد قرآن مجید سے محبت و عشق بڑھ جاتا ہے اور انسان تلاوت کی پابندی شروع کر دیتا ہے۔اس کتاب سے قرآن حکیم میں غور و فکر کا شوق پیدا ہوتا ہے۔

قرآں میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں!

اللہ  کرے   عطا   تجھ  کو   جدت   کردار
مکمل تحریر >>

عشقِ رسولﷺ

حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم نے حضور اکرم ﷺ کے عشق میں ڈوب کر یہ کتاب لکھی ہے۔اس کتاب کے متعلق ماسٹر عبد الستار انجم لکھتے ہیں کہ اس کتاب کے مطالعے سے اہل دل میں عشق کی تڑپ اور اہل علم میں محبت کی بے قراریاں اور محبوبﷺ کے وصل کے لیے بے چینیاں پیدا ہوں گی۔
مکمل تحریر >>

عشقِ الٰہی


ہمارے شیخ حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم نے "عشق الٰہی" کو سفر کے دوران لکھا ہے اور انتہائی مصروفیت کے دوران لکھا ہے۔یہ کتاب ہر شعبہ زندگی کے لوگوں میں انتہائی مقبول ہے۔

"عشق الٰہی" کے متعلق زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آراء:

حضرت مولانا قاسم منصور مدظلہ:


"عشق الٰہی"اللہ کی محبت کی چنگاری کو بھڑکاتی ہے اور آدمی کو اللہ کا مجنوں بناتی ہے۔

حضرت مولانا صاحبزادہ حافظ سیف اللہ مدظلہ:


"عشق الٰہی"بہت اچھی لگی، خصوصاً یہ شعر بہت اچھے لگے:

کیسے الفاظ کے سانچے میں ڈھلے گا یہ جمال

سوچتا ہوں کہ تیرے حسن کی توہین نہ ہو

حضرت مولانا مفتی غلام رسول مدظلہ:


"عشق الٰہی" کو آٹھ دفعہ پڑھ چکا ہوں۔اب بھی مزید پڑھنے کا اشتیاق ہے، پڑھتے پڑھتے تھکتا نہیں ہوں۔اس سے عشق الہٰی کی چنگاری پیدا ہوتی ہے۔

فقیر محمد اسلم نقشبندی مجددی:


عشق الٰہی پیدا کرنا ہر دینی کام کا مقصد ہے۔اگر اللہ کی محبت کی شدت میں کوئی کام کیا جائے تو اس سے سکون قلب نصیب ہوتا ہے۔یہی"عشق الٰہی" کا پیغام ہے۔
مکمل تحریر >>

نماز کے اسرار و رموز

حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی کی انتہائی مؤثر کتاب ہے، جس کو پڑھنے سے نماز کی اہمیت اور خشوع و خضوع کا پتہ چلتا ہے۔اس کتاب کے لکھنے میں حضرت جی دامت برکاتہم نے بڑی محنت و مشقت اٹھائی ہے۔قارئین سے امید کی جاتی ہے کہ وہ کتاب کو خودبھی پڑھیں گے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پڑھائیں گے، تاکہ سب مسلمان نماز کی پابندی کرنے والے بن جائیں۔
"نماز کے اسرار و  رموز" کے متعلق زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آراء:

حضرت مولانا قاسم منصور مدظلہ:

"نماز کے اسرار  و   رموز" سے نماز کی حقیقت کا بتہ چلا اور نماز کا ذوق و شوق بڑھا۔ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی نماز کی بھی فکر کرے اور دوسرے مسلمانوں کی نماز کی بھی فکر کرے۔

حضرت مولانا صاحبزادہ حافظ سیف اللہ مدظلہ:

اس کتاب سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نماز کیسے پڑھنی ہے اور کیسے درست کرنی ہے اور احساس پیدا ہوا کہ جم کر نماز پڑھنی ہے۔یہ شعر بہت اچھا لگا:
میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم  آشنا تجھے  کیا  ملے  گا  نماز  میں

حضرت مولانا مفتی غلام رسول مدظلہ:

صحابہ کرام والی نماز پڑھنے کا شوق تھا، یہ کتاب پڑھ کر کافی ترقی ہوئی اور تسلی ہوئی۔

ڈاکٹر محسن مدظلہ(جھنگ):

یہ کتاب پڑھنے سے نماز میں خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے اور نماز کی حقیقت حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔رکوع و سجود کا ذوق حاصل کرنے کے لیے انسان کوشش کرتا ہے۔

انجم خلیل نقشبندی مجددی:

اس کتاب کو پڑھ لینے کے بعد  کئی دنوں تک نماز میں خشوع و خضوع برقرار رہتا ہے اور بندہ تکبیر اولٰی تک کا اہتمام کرنے لگتا ہے۔عاجز کو نماز میں جب بھی کیف و سرور کی عدم دستیابی کی شکایت ہوتی ہے تو کتاب ہذا کے چند صفحات پڑھنے سے ہی افاقہ ہوجاتا ہے۔
مکمل تحریر >>

موت کی تیاری

"موت کی تیاری" حضرت جی دامت برکاتہم کے بیانات کا مجموعہ ہے، جنہیں ایک جگہ جمع کیا گیا ہے، تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ موت کی فکر کرکے آخرت کی تیاری کر سکیں۔مخت تصر اور جامع کتاب ہے۔

حضرت مولانا قاسم منصور مدظلہ:

"موت کی تیاری"حقیقی زندگی کی تیاری میں زبردست معاون ہے۔

حضرت مولانا صاحبزادہ حبیب اللہ مدظلہ:

"موت کی تیاری" کتاب پڑھنے سے موت کی فکر پیدا ہوتی ہے۔

حضرت مولانا صاحبزادہ حافظ سیف اللہ مدظلہ:

یہ کتاب پڑھنے سے بہت فائدہ ہوا اور موت کی تیاری کی فکر پیدا ہوئی۔

حضرت مولانا مفتی غلام رسول مدظلہ:

"موت کی تیاری" پڑھ کر آخرت کی فکر دامن گیر ہوتی ہے اور دنیا کی بے ثباتی ظاہر ہوتی ہے۔

فقیر محمد اسلم نقشبندی مجددی:                       

"موت کی تیاری" بار بار پڑھنے کے قابل کتاب ہے، تاکہ موت کا استخصار رہے اور گناہوں سے جان چھوٹی رہے۔واقعی ! انسان گناہ اس وقت کرتا ہے جب موت کو بھولتا ہے۔

مکمل تحریر >>

دوائے دل

حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی کے ہندوستان کے سفر کے خطبات کا مجموعہ ہے، جو انہوں نے مسلمانوں کی بڑی بڑی تعلیمی درسگاہوں تھانہ بھون، گجرات،دارالعلوم اسلامیہ بنات الصالحات بھروچ، اصلاح البنات سملک،جامعہ تعلیم الدین ڈھابیل وغیرہ میں ارشاد فرمائے۔
"دوائے دل" کے متعلق مختلف لوگوں کی رائے:

حضرت مولانا قاسم منصور مدظلہ:

"دوائے دل" فی الوقع دوائے دل ہے۔ہر کسی کو اس کے مطالعے سے دل کو دوا پہنچانی ہے۔

حضرت مولانا صاحبزادہ حافظ سیف اللہ مدظلہ:

اس کتاب میں دل کے فائدے کی بہت دوا ہے اور جو کچھ لکھا گیا ہے اسے پڑھنا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔

فقیر محمد اسلم نقشبندی مجددی:

دوائے دل" کسی نئے آدمی کو دینے کے لیے بہترین تحفہ ہے، کیونکہ یہ ایک جلد پر مشتمل ہے، اس لیے آسانی سے خریدی جا سکتی ہے اور پڑھی جا سکتی ہے۔واقعی! بیمار دلوں کی دوا ہے۔

ڈاکٹر اکرم سرگودھا:

"دوائے دل" میں بہت کیفیات ہیں جو دل کو بہت کھینچتی ہیں۔تجربے کے لیے اس کا مطالعہ کرنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس کا مطالعہ کروانا چاہیے۔

ڈینٹل ڈاکٹر شفیق صاحب:

اس کتاب کو پڑھ کر بہت رویا ہوں۔دل کی اصلاح کے لیے"دوائے دل" واقعی دوائے دل ہے۔ہر سمجھ دار انسان کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔جس سے قلبی سکون بھی حاصل ہوتا ہے۔

مکمل تحریر >>

Thursday, March 17, 2016

لاہور تا خاکِ بخارا و سمر قند (سفر نامہ روس)

زندگی ایک سفر ہے اور جب یہ سفر دین کے لیے کیا جائے تو یہ سفر بھی عبادت بن جاتا ہے۔حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم نے 1992ء میں روس کا سفر کیا اور بے شمار لوگ آپ کے ہاتھ پر توبہ تائب ہوئے اور بہت سے لوگ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے۔ا ن حالات و واقعات کو نصیحت اور عبرت کی نظر سے لوگوں کے ےفائدے کے لیے پیش کیا گیا ہے، تاکہ لوگ خوابِ غفلت کو چھوڑیں اور سچی اور سُچی زندگی گزارنے کا مصمم ارادہ کریں۔
سفرنامہ کے متعلق مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آراء:

حضرت مولانا قاسم منصور مدظلہ:

سفر نامے کے متعلق کیا بیان کریں،بس سفر نامہ انسان پڑھتا رہے اور روتا رہے۔

حضرت مولانا صاحبزادہ حافظ حبیب اللہ مدظلہ:

سفرنامے کو دو تین دفعہ پڑھا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ساتھ ساتھ سفر کررہے ہوں۔پہلے  ابو کی الماری میں تھا پڑھنے کے بعد میرے الماری میں آگیا۔

حضرت مولانا صاحبزادہ حافظ سیف اللہ مدظلہ:

سفرنامے کو دو دفعہ پڑھا ہے، تمنا ہے کہ اور بھی پڑھوں۔دل چاہتا ہے سفر میں ابو جی کے ساتھ رہوں اور کام کرتے ہوئے دیکھوں۔

حضرت مولانا اظہر صاحب:

سفرنامہ کو ہر طبقے کے لوگ پسند کرتے ہیں اور ان پر زبردست اثرات ہوتے ہیں۔اس لیے پہلی فرصت میں ہر کسی کو پڑھنا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پڑھانا چاہیے،تاکہ وہ بھی فائدہ اٹھائیں۔اس سے آداب کا پتہ چلتا ہے خصوصاً نوجوانوں کی تربیت کے لیے بہترین ہے۔

حضرت مولانا مفتی غلام رسول مدظلہ:

سفرنامہ پڑھ کر صحابہ کرام  کی یاد تازہ ہوتی ہے کہ اولیاء اللہ نے صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا دھن من تن دین کے لیے لگا دیا۔

انجم خلیل نقشبندی مجددی:

سفرنامہ پڑھتے ہوئے گویا یوں محسوس ہوا کہ شہر شہر ، گلی گلی، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، مسجدوں میں ،مزارات پر، خصوصی نشستوں اور مجالس میں حضرت جی جہاں جہاں ہوں یہ عاجز بھی گویا ساتھ ساتھ ہے۔سفرنامہ ایک دفعہ پڑھا سیری نہ ہوئی ، دوسری دفعہ پڑھا ، تیسری دفعہ پڑھا، چوتھی دفعہ حتیٰ کہ گیارہ دفعہ پڑھ لیا، لیکن:
دل ہے کہ تیری یاد سے بھرتا نہیں

ڈاکٹر اکرم صاحب(سرگودھا):

سفرنامہ کی یہ خوبی ہے کہ گھر بیٹھے بٹھائے انسان مطالعہ کے وقت ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا محسوس کرتا ہے۔سفرنامہ پڑھ کر اللہ والوں کے ساتھ اللہ کی مدد کا کامل یقین پیدا ہوتا ہے۔

مولانا عثمان صاحب(جھنگ):

سفرنامہ میں حضرت جی دامت برکاتہم کی محنت و مجاہدہ نے بہت متاثر کیا کہ دن دیکھا نہ رات دیکھی اور نسبت کے پھیلانے کا حق ادا کردیا۔

ڈاکٹر محسن مدظلہ(جھنگ):

سفرنامہ کو پڑھ کر شدید خواہش ہوئی کہ حضرت جی کی زیارت کروں۔ملتان میں زیارت ہوئی، بیعت ہوئے اور اس طرح زندگی کا  "ٹریک" تبدیل ہوا۔واقعی! یہ ایک انقلابی کتاب ہے۔

فقیر محمد اسلم نقشبندی:

اس سفرنامہ میں حضرت جی دامت برکاتہم کے آزاد ریاستوں کے سفر کے حالات اور مشائخ نقشبندیہ کے مزارات پر حاضری کے حالات و تاثرات لکھے گئے ہیں، جس کی وجہ سے یہ سفر نامہ مشائخ نقشبندیہ کا گل سر سبد بن گیا ہے۔سفرنامہ میں مشائخ کی قوی توجہات محسوس ہوتی ہیں اور وہاں کے لوگوں کے محبت و آداب کے انداز سے قارئین کو سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔

ڈاکٹر عبد الشکور (فیصل آباد):

اس کتاب کو پڑھ کر یہ احساس پیدا ہوا کہ ہم اپنے شیخ کی صحیح قدر نہیں کر سکے۔
کہنہ مشق ادیب صحافی ریٹائرڈ ڈپٹی سیکرٹری سلسلہ چشتیہ کے مجاز جنا ب نبی احمد لودھی صاحب نے فرمایا:
یہ سحر انگیز کتاب ہے۔
پاکستان ٹائمز کے سب ایڈیٹر جناب صوفی اسلم صاحب نے یہ تاثرات دیے:
تو نے باتوں میں بکھیرے تھے جو نورس غنچے
میں انہیں شعر کی صورت میں سجا لایا ہوں
شاعری زیست میری زیست عبارت تجھ سے
تیری دولت تیرے قدموں میں اٹھا لایا ہوں
مکمل تحریر >>

خواتین کے تربیتی بیانات

یہ کتاب عورتوں میں بہت مقبول ہے۔اس کا مطالعہ سے بہت سی عورتوں کی تربیت ہوئی ہے اور انہوں نے اپنے خیالات کو بدلا ہے اور اپنی گھریلو زندگی میں مثبت اندازِ زندگی کو اپنایا ہے۔
مکمل تحریر >>

Tuesday, March 15, 2016

مجالسِ فقیر

یہ حضرت جی دامت برکاتہم کی بڑی گراں قدر مجالس کا مجموعہ ہے، جو کہ حضرت جی دامت برکاتہم کی صحبت مبارکہ میں بیٹھ کر لکھا جاتا رہا ہے۔صحبت شیخ کی تاثیر ان مجالس میں لکھے گئے کلمات کے اندر بھی سرایت کر گئی ہے، اس لیے یہ الفاظ دل پہ جا کے اثر کرتے ہیں اور دلوں کو بدلنے کا باعث بن جاتے ہیں۔
ہر مجلس کا موضوع اور ذیلی سرخیاں بھی ہیں۔ان مجالس کی تاثیر کو یہ عاجز قلم کی زبان سے بیان کرنے سے قاصرہے۔اس عاجز کی عادت ہے کہ حضرت جی دامت برکاتہم کی تصانیف کو زیادہ سے زیادہ زیر مطالعہ رکھا جائے، مگر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی کتاب چھپوانے کے بعد اس کو پڑھنے کے مواقع کم ہی نصیب ہوتے ہیں اور کسی نئی کتاب کا کام شروع ہوجاتا ہے،مگر یہ ملفوظات ایسے ہیں کہ سستی دور کرنے کے لیے بار بار یہ عاجز ان کو پڑھتا رہتا ہے۔
جس طرح صحبت ِ شیخ سے ہزاروں کی زندگیاں بدل گئی ہیں اسی طرح مجالسِ فقیر بھی انشاء اللہ بہت سے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب لانے کا باعث ہوں گے۔اللہ تعالیٰ کی محبت سیکھنے کا گُر اللہ والوں کی صحبت میں رہ کر سیکھنا پڑتا ہے۔
ان سے ملنے کی ہے یہی اک راہ
کہ ملنے والوں سے  راہ  پیدا  کر
یہ مجالس حضرت جی دامت برکاتہم کی نجی تربیتی مجالس کا مجموعہ ہیں جو کہ دورانِ سفر بھی لکھی گئیں اور ان میں سفر کی زبردست برکات بھی محسوس ہوتی ہیں۔کبھی کسی نے سوال کیا تو اس کے جواب میں کچھ ارشاد فرمایا، کبھی کسی کی کوئی غلطی پر روک ٹوک کرکے اصلاح کردی،کبھی کسی کو کوئی ترغیب دے کر اصلاح کردی، بہر حال یہ مجالس حقیقت میں تربیتی مجالس ہیں۔اگر کسی کو حضرت کی مجالس میں جانے کے کم مواقع ملتے ہیں تو یہ مجالس اس کمی کو دور کرتی ہیں اور سالک کی بہت سی باتوں کی اصلاح کر دیتی ہیں۔یہ تجربہ شدہ باتیں ہیں ، کوئی ہوائی باتیں نہیں ہیں۔اس لیے ان مجالس سے اپنی اصلاح و تربیت کے سلسلے میں بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔یہ تقریباً دس جلدوں تک شائع ہوگئی ہیں۔

مجالس کے متعلق زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آراء:

حضرت مولانا قاسم منصور مدظلہ:

"مجالس فقیر" کے اندر عجیب معارف و نکات بیان ہوئے ہیں، جو کسی عبقری شخصیت سے ہی صادر ہو سکتے ہیں۔اس لیے اپنی تربیت کی خاطر ہر ایک کو ان کا مطالعہ کثرت سے کرنا چاہیے۔

حضرت مولانا صاحبزادہ حافظ حبیب اللہ مدظلہ:

"مجالس فقیر" کے مطالعہ سے اپنی اصلاح کی فکر پیدا ہوتی ہے ، کیونکہ اس میں بہت سے لوگوں کی اصلاح کے متعلق باتیں ہوتی ہیں۔

حضرت مولانا صاحبزادہ حافظ حبیب اللہ مدظلہ:

ابو جی کی مجالس واقعی اصلاحی ہوتی ہیں اور بندے کو اپنی خطاؤں کا احساس ہونے لگتا ہے۔

حضرت مولانا مفتی غلام رسول مدظلہ:

"مجالس فقیر" پڑھنے سے یہ محسوس ہوتا ہے گویا حضرت جی دامت برکاتہم کی مجلس میں بیٹھے ہیں۔جس کو صحبتِ شیخ میسر نہیں وہ مجالس کا مطالعہ کرے تو اسے صحبتِ شیخ کے بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔

فقیر محمد اسلم نقشبندی مجددی:

"مجالس فقیر" کا لکھنا  محض اور محض  اللہ کا  فضل ہے اور اس کے فوائد راقم کو اتنے حاصل ہوئے ہیں کہ جس کا گننا مشکل ہے۔یقین کریں کہ مجالس لکھتے اور پڑھتے وقت قلبی سکون حاصل ہوتا ہے جس کا ہر بندہ متلاشی ہے۔پریشانیوں کے حل کے لیے ہر روز ایک مجلس پڑھنا  ایک بہترین ٹانک ہے۔جس طرح صحبتِ شیخ سے ہزاروں زندگیاں بدل گئی ہیں اسی طرح ان صحبتوں میں لکھی گئی مجالس سے بھی ہزاروں لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے، بشرطیکہ انہیں اصلاح کی نیت سے پڑھا جائے۔"مجالس فقیر" کے مطالعے سے اللہ تعالیٰ کی محبت و معرفت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔کیونکہ مجالس کے دل میں جو کچھ ہوگا وہی اثر پس بیٹھنے والوں پر پڑے گا۔
مکمل تحریر >>

با ادب با نصیب

الحمدللہ !اس کتاب کا نام ایسا دلکش ہے تو پھر مواد اور موضوعات کا کیا کہنا!!میرے جیسا نادان جو کہ ادب کی شاید "الف،بے" سے بھی واقف نہیں وہ اس کتاب کی شان و عظمت کو کیا بیان کر سکتا ہے؟حقیقتاً حضرت جی دامت برکاتہم نے یہ کتاب لکھ کر ہم پر احسانِ عظیم فرمایا ہے۔
جب اسلام ہے ہی ادب کا نام تو پھر آداب کو سیکھنا کتنا ضروری ہے ، مگر ہم لوگ اس انتہائی اہم چیز سے غافل ہیں اس کا احساس بھی بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔اس کتاب نے اس مقولہ "با ادب با نصیب" کے اثر کو دو چند کر دیا ہے۔اس کتاب کا پہلا باب ادب کی اہمیت سے متعلق ہے۔اس باب میں ادب کی اہمیت خوب اچھی طرح اجاگر کی گئی ہے۔نفس مضمون سے پہلے اس کی اہمیت کو بیان
"یاد رکھیں ! جو عمل بھی ادب سے خالی ہوگا وہ درحقیقت حسن و جمال سے خالی ہوگا۔حدیثِ قدسی ہے،ترجمہ:
"اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔"
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جس کو ادب کی توفیق نصیب ہوئی اسے سعادت ملی اور جو محروم ہوا اسے شقاوت ملی۔"
اس باب کے آخر میں"ادب اکابرین کی نظر میں" کے عنوان سے آداب کا ذکر ہے۔چند اقوال ملاحظہ ہوں،
حضرت علی نے فرمایا:
"ہر شے کی کوئی قیمت ہوتی ہے اور انسان کی قیمت اس کا علم و ادب ہے۔"
حضرت ابو عبداللہ بلخیؒ نے فرمایا:
"آدابِ نفس کا حاصل کرنا علم کے حاصل کرنے سے بھی زیادہ اہم ہے۔"
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی محبوب سبحانیؒ نے فرمایا:
"بے ادب خالق اور مخلوق دونوں کا معتوب ہوتا ہے۔"
حضرت شیخ علی بن عثمان ہجویریؒ "کشف المحجوب" میں لکھتے ہیں:
"تارک ادب اخلاق محمدیﷺ سے بہت دور ہوتا ہے۔"
اس کتاب میں بارگاہِِ الوہیت اور بارگاہ رسالت کے آداب کا زبردست انداز میں تذکرہ ہے۔اس انداز کو ملاحظہ فرمائیں:
"اگر محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ نے اس دنیا میں جلوہ افروز نہ ہونا ہوتا تو یہ جن و بشر ، شمس و قمر،شجر و حجر ، بحر و بر ، پھولوں کی مہک ، چڑیوں کی چہک، سبزے کی لہک، سمآ و سمک،رفعت و پستی، خوشحالی و بدبختی،زمین کی نرمی، سورج کی گرمی، دریا کی روانی، کواکب آسمانی، خزان و بہار، بیاباں و مرغزار، نباتات و جمادات، جواہر و معدنیات، جنگل کے درندے، ہوا کے پرندے، غرض کائنات کی کسی چیز کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔"  
گر ارض و سما  کی محفل میں  لولاک   لما    کا   شور   نہ   ہو
یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں یہ نور  نہ ہو  سیاروں میں
"آدابِ معلمین"کے باب میں علم اور اس کی ضروریات ، تقاضے،اثرات،مختلف اقوال و  واقعات سے ظاہر ہوتے ہیں۔
"راہ سلوک کے آداب"میں بڑے عجیب و غریب معارف ہیں۔اس کے علاوہ پیر بھائیوں اور طریقت کے آداب ہیں۔ایک باب کے اندر آداب السادات کا بڑا خوبصورت تذکرہ ہے۔آخری باب میں آداب معاشرت کا ذکر ہے جو بار بار پڑھنے کے قابل ہے۔چاہیے کہ ان آداب کا ہر وقت استحصار رہے۔
"با ادب بانصیب" کے متعلق زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آراء:

حضرت مولانا صاحبزادہ سیف اللہ مدظلہ:

اس سے انسان کے اندر ادب کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ادب کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے

حضرت مولانا مفتی غلام رسول مدظلہ:

"با ادب بانصیب" پڑھنے سے انسان ادب سیکھتا ہے اور انسان میں انسانیت پیدا ہوتی ہے۔اگر انسانیت پیدا ہوجائے تو واقعی انسان ، انسان بن جاتا ہے۔
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں  ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

حضرت مولانا قاسم منصور مدظلہ:

"با ادب با نصیب" کے پڑھنے سے پتہ چلا کہ پہلے تم ہم حیوانی زندگی گزار رہے تھے اب کچھ انسان بنے ہیں۔
مکمل تحریر >>

خطباتِ فقیر

خطباتِ فقیر


حضرت جی دامت برکاتہم کے بیانات قلمی گلدستے ہیں۔ان میں مختلف موضوعات پر بیانات ملتے ہیں۔یہ بیانات ہی نہیں، بلکہ درد دل سے نکلی ہوئی باتیں ہیں، جنہوں نے بلا مبالغہ ہزاروں لوگوں کی زندگی میں انقلاب برپا کیا ہے۔اس بات کی گواہی ان زندگیوں سے ملتی ہے جو اب بدل کر ایک نیا روپ اختیار کر چکی ہیں۔ثابت ہوا کہ یہ انقلابی بیانات ہیں، بہت پُر تاثیر ہیں۔اگر پڑھنے بیٹھ جائیں تو چھوڑنے کو دل نہیں کرتا۔
دنیا کے اکثر ملکوں میں یہ خطبات بڑے شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔علماء کرام اور طلباء کرام جمعہ کے خطبات کے لیے ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں، گویا انہیں پکی پکائی کھیر مل جاتی ہے۔اپنی تاثیر کے لحاظ سے بھی یہ خطبات لاجواب ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے پوری طرح مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
مختلف قارئین نے راقم الحروف کو یہ تاثرات دیے کہ خطبات پڑھتے ہوئے بوریت محسوس نہیں ہوتی اور بڑی دلچسپی سے انسان انہیں پڑھتا ہے۔چند علمائے کرام نے فرمایا کہ جمعہ کے بیان سے پہلے ہر عالم کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ نمونہ از خروارے کے طور پر  چند تاثرات درج ذیل ہیں:

حضرت مولانا مفتی غلام رسول مدظلہ:

اکثر اوقات جمعہ کے خطبات کے لیے انہی سے استفادہ کیا جاتا ہے اور خطبات اتنے مؤثر اور آسان فہم ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے۔

حضرت مولانا عثمان صاحب:

خطبات پڑھ کر انسان کو زندگی کے نقائص کا پتہ چلتا ہے اور اصلاح کی فکر پیدا ہوتی ہے۔

ڈاکٹراکرم(سرگودھا):

خطباتکے پڑھنے سے علم و عمل میں اضافہ ہوتا ہے اور اکابرین کے واقعات کا پتہ چلتا ہے، جس سے اکابرین کے ساتھ قلبی رابطہ جڑتا ہے۔

ڈاکٹر شاہد محمود:

ان خطبات کا مطالعہ آپ کو علم و حکمت ، سوزِ عشق ، ذوق ادب ، شوق عمل، اصلاح عقائد، اصلاح معاشرہ، اخلاق حسنہ، تصفیہ قلب، تزکیہ نفس اور کئی پہلوؤں سے فکری اور روحانی بالیدگی عطا کرے گا۔اپنے اہل خانہ اور احباب کو یہ خطبات پڑھنے کے لیے دیجئے۔

ڈاکٹر محسن مدظلہ جھنگ:

خطبات پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیان میں بیٹھا ہوں۔جو نور بیان سننے سے ملتا ہے وہی نور ان بیانات کو پڑھنے سے بھی محسوس ہوتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالشکور صاحب فیصل آباد:

زندگی میں جس قسم کی کمی محسوس ہوتی ہے ویسا ہی بیان اٹھا کر پڑھ لیتا ہوں۔دنیا کی محبت میں پھنستا ہوں دنیا کی مذمت کا بیان پڑھ لیتا ہوں تو کافی اصلاح ہو جاتی ہے۔
مکمل تحریر >>

Friday, March 11, 2016

مکتوباتِ فقیر


الحمد للہ! حضرت جی دامت برکاتہم کی یہ کتاب بہت زیادہ مقبول ہے۔قلیل عرصے میں اس کے کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔پہلا ایڈیشن علیحدہ علیحدہ  کتابچوں کی شکل میں شائع کیا گیا۔دوسرا ایڈیشن خوبصورت اور مجلد صورت میں منظر عام پر آیا۔تیسرا ایڈیشن سستا اور فقیرانہ صورت میں سامنے آیا۔اس کے بعد اس کے کئی ایڈیشن آچکے ہیں۔اتنے تھوڑے وقت میں کئی ایڈیشن کا نکلنا حیران کن بات ہے۔حالانکہ ابھی باقاعدہ منظّم طریقے سے  یہ مکتوبات مارکیٹ میں نہیں لائے جا سکے۔

مکتوبات لکھتے ہوئے سالکین کے حالات کو مدنظر رکھا گیا۔اس لیے ان مکتوبات مین سب کے لیے فائدہ مند مواد موجود ہے۔مولانا سجاد ندوی نعمانی مدظلہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ ہم علماء کرام کو متاثر کرنے کے لیے " مکتوبات فقیر" ہی پڑھاتے ہیں۔جب مختلف سالکین کو لکھے گئے ان مکتوبات کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ہر ایک کا مسئلہ حل ہوگیا۔ہر ایک کو اپنے مسئلے سے متعلق مشورہ اور رہنمائی مل جاتی ہے۔یہ مکتوبات اس مصرعے کے مصداق ہیں:

میں نے جانا گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

مکتوبات میں حضرت جی دامت برکاتہم کی بہت زیادہ توجہات محسوس ہوتی ہیں۔بعض اوقات لوگوں کو صرف ایک خط سنا کر ہی روحانیت اور تصوف و سلوک کا قائل کر لیا گیا۔بعض ایسے مکتوبات ہیں کہ سینکڑوں بار پڑھے جانے کے قابل ہیں،تاکہ ہم سراپا عمل بن جائیں۔خصوصاً راقم الحروف اس خط کو تقریباً کئی دفعہ ضرور پڑھ چکا ہوگا جو آزاد ریاستوں کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے۔جناب ذوالفقار احمد صدیقی صاحب کے نام لکھے گئے خط کو کئی محفلوں میں پڑھ کر سنایا گیا۔امریکہ کے حالات و واقعات پر مشتمل خطوط میں بھی عقل مندوں کے لیے عبرت کا سامان ہے۔جناب آفاق صاحب کے والد صاحب کی تعزیت کے لیے جو خط لکھا گیاہے وہ ہمارے اسلامی لٹریچر میں شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔

شعر یاد ہوجانا دوسری بات ہے، مگر اشعار کا موقع پر یاد آنا اور برمحل استعمال کرنا یہ ذرا مشکل کام ہے،مگر یہ خصوصیت مکتوبات سے عیاں ہے۔مکتوبات میں اشعار موتیوں کی طرح جڑے ہوئے نظر آتے ہیں،مثلاً: ایک موقع پر آپ لکھتے ہیں :

"امریکہ کے نوجوان قابل رحم ہیں کہ سکون حاصل کرنے کی خاطر بے سکونی پیدا کرنے والے کاموں میں منہمک ہیں۔"

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار  کے  لونڈے سے دوا  لیتے  ہیں

فیصل آباد کے دورے کا حال جناب آزاد صاحب کو نہایت عاجزی اور انکساری سے لکھتے ہیں۔پڑھ کر طبیعت پھڑک اٹھتی ہے۔حضرت جی دامت برکاتہم نے لکھا:

"فیصل آباد میں ہر دن میں اندازاً تین سے چار پروگرام ہورہے ہیں۔الحمدللہ! مخلوق خدا کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔پورے شہر میں ہل چل سی مچ گئی ہے۔جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں تقریباً ڈیڑھ ہزار طلباء و علمائے کرام میں بیان ہوا۔من آنم کہ من دانم

بس اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام و احسان ہے۔بقول شخصے:

"ووکانی ہاں تیڈے نام پچھوں نیں تے مینوں کمینی نوں کون جاندا ہائی

میڈے گل پٹہ تیڈے نام  والا  تیڈے  نام ک وں  جگ  سنجا ندا ہائی

مختصر یہ کہ مکتوبات کی کن کن خصوصیات کو لکھا جائے:

ایں تمام خانہ آفتاب شد

کے مصداق تمام مکتوباتِ فقیر میں فقر و درویشی کے گنج ہائے گراں مایہ بیان ہوئے ہیں۔مکتوبات فقیر واقعی مکتوبات فقیر ہیں اور اسم بامسمی ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں موت سے پہلے پہلے ان مکتوبات سے پوری طرح مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور اجن اعلیٰ مقاصد کے لیے یہ مکتوبات لکھے گئے ہیں ہمیں ان کو پورا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے آمین۔

قوتِ عشق سے ہر  پست  کو  بالا  کر دے

دھر میں اسمِ محمدﷺ سے اجالا کردے

"مکتوبات فقیر" کے متعلق زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آراء:

حضرت مولانا قاسم منصور مدظلہ:

مکتوبات کے پڑھنے سے انفرادی توجہ محسوس ہوتی ہے جس سے خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے اور انفرادی اصلاح کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔اس لیے ہر کسی کو انہیں پابندی سے پڑھنا چاہیے۔

حضرت مولانا صاحبزادہ حافظ حبیب اللہ مدظلہ:

مکتوبات کے پڑھنے سے خط لکھنے کا طریقہ آگیا ہے اور خطوط کی اہمیت واضح ہوئی۔

حضرت مولانا عثمان صاحب:

مکتوبات میں انسان کی خطرناک غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔انسان کو انہیں اپنی اصلاح کی نیت سے بار بار پڑھنا چاہیے اور اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔

حضرت مولانا مفتی غلام رسول مدظلہ:

مکتوبات پڑھنے سے اپنی اصلاح کی فکر پیدا ہوتی ہے اور سلوک کی مشکل گھاٹیوں کا پتہ چلتا ہے۔

فقیر محمد اسلم نقشبندی مجددی:

جب مختلف سالکین کو لکھے گئے ان مکتوبات کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ہر ایک کا مسئلہ حل ہو گیا ہے اور ہر ایک کو اپنے مسئلے سے متعلق مشورہ اور رہنمائی مل جاتی ہے۔گویا اس مصرعے کے مصداق بن گیا:

گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

مکتوبات میں حضرت جی دامت برکاتہم کی بہت زیادہ توجہات محسوس ہوتی ہیں۔بعض اوقات لوگوں کو صرف ایک خط سنا کر ہی روحانیت اور تصوف  و سلوک کا قائل کر لیا گیا۔بعض ایسے مکتوبات ہیں کہ سینکڑوں بار پڑھے جانے کے قابل ہیں، تاکہ انسان سراپا عمل بن سکیں۔

انجم خلیل نقشبندی مجددی صاحب:

ایک ایک مکتوب کئی اسرار و رموز پر مشتمل ہے۔ہر خط کا مخاطب خود کو محسوس کیا۔مکتوبات کا مطالعہ اپنے اندر جھانکنے کی دعوت دیتا ہے۔نفس کی مکاریوں ، روحانی بیماریوں کے علاج کا طریقہ سکھاتا ہے۔ہم جیسے کم ہمت سالکوں کے لیے تو ہر مکتوب نسخۂ کیمیا ہے۔
مکمل تحریر >>

تصوف و سُلوک


یہ کتاب تیرہ ابواب پر مشتمل ہے۔ہر باب اپنی جگہ اہم ہے، لیکن بعض ابواب تمام سالکین کے لیے بہت ضروری ہیں، تاکہ وہ انہیں حرز جان بنا لیں۔یہ ابواب کئی بار پڑھنے کے قابل ہی نہیں ، بلکہ سمجھنے اور دل و دماغ میں اتار کر عمل کے سانچے میں ڈھالنے کے قابل ہیں۔اس کتاب کے بارے میں حضرت جی دامت برکاتہم ایک جگہ فرماتے ہیں:

"ہر سالک کے لیے ازحد ضروری ہے کہ وہ (اس کتاب میں بیان کردہ)آداب کا خیال رکھے ، کیونکہ وہ جتنا زیادہ آداب کا خیال رکھے گا اتنا زیادہ ترقی پائے گا۔اگر آداب کو پڑھ کر غفلت برتے گا تو باطنی نعمتوں سے بھی محروم ہوجائے گا۔"

ان واشگاف الفاظ میں تنبیہات کو بھی اگر غفلت کے کانوں سے سنا جائے اور پڑھا جائے تو ایسے مریض پر سوائے ترس کھانے کے اور کیا کیا جا سکتا ہے؟وہ روحانی بیمار ہے لیکن اسے اپنی بیماری کا احساس تک نہیں ہے۔

وائے   ناکامی    متاع   کارواں   جاتا   رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

ضرورت مرشد کا باب  اتنا متاثر کن ہے کہ اس باب کو علیحدہ ایک چھوٹے کتابچے کی شکل میں بھی چھپوایا گیا ہے۔واقعی !اس باب سے منکرینِ شیخ "ضرورت  شیخ" کے قائل ہوگئے ہیں۔اسباق تصوف کے باب میں سالکین کی ایک دیرینہ آرزو پوری ہوئی ہے کہ معمولات کی شرح و بسط سے بیان کیا گیا ہے۔

اب گیند ہمارے کورٹ میں ہے کہ ہم معمولات کرتے ہیں یا بہانے بناتے ہیں۔معمولاتِ شب و روز کے باب میں بڑے احتصار کے ساتھ شب و روز کا بہترین پروگرام ترتیب دے دیا ہے۔اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ فقط معمولات کو پڑھتے ہیں یا ساتھ عمل بھی کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہر ایک کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

معارف و حقائق  کا باب رنگا رنگ معارف سے بھرا پڑا ہے۔راقم الحروف نے کئی دفعہ خود دیکھا کہ حضرت جی دامت برکاتہم دورانِ مطالعہ جب کوئی انتہائی اہم بات دیکھتے تو لکھ لیتے تھے۔

 اس باب میں آپ کی ڈائریوں سے مختلف منتخب کردہ معارف لکھے گئے۔گویا یہ حضرت جی دامت برکاتہم کی زندگی بھر کا نچوڑ ہیں۔

اخلاق حمیدہ کا باب بہت احسن و عمدہ ہے۔اخلاق کے بغیر انسان آدمیت کے زمرۂ فضیلت سے گزر کر حیوانوں کے زمرے میں داخل ہوجاتا ہے۔یہ باب پڑھ کر ہر انسان اللہ رب العزت سے دعا تو کر سکتا ہے کہ اعلیٰ اخلاق نصیب فرما دیجیے۔اخلاق عالیہ کو آرزو بنا کر مانگنے سے آپ کو ضرور حصہ ملے گا۔اللہ تعالیٰ مال تو بن مانگے بھی عطا کر دیتے ہیں ، البتہ ہدایت مانگنی پڑتی ہے۔



ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے کوئی راہرو منزل ہی نہیں

ہمیں اخلاق محمدیﷺ بھی مانگتے رہنا چاہیے۔

یہ وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد

آخری باب سوالات و جوابات کا ہے۔اس میں خصوصیتِ شیخ واضح ہو رہی ہے کہ اختصار کے باوجود تسلی بخش جوابات ہیں۔موجودہ دور ذہنی انتشار کا دور ہے۔ہر دماغ میں ہزاروں شکوک و شہبات انگرائیاں لے رہے ہوتے ہیں۔اس باب میں ایسے خوبصورت جوابات دیے گئے ہیں کہ پڑھ کر تمام شبہات دور ہوجاتے ہیں۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ بیمار کی شفا سوال کرنے میں ہے۔

(مصنف عبد الرزاق، رقم:873)

راقم الحروف نے بھی بیعت ہونے سے پہلے تین گھنٹے  حضرت جی دامت برکاتہم سے سوالات کرکے اپنی شکوک و شبہات کے جال کو پارہ پارہ کیا تھا۔اب تو حضرت جی دامت برکاتہم کی صحبت  ایسی تسکین ہوتی ہے کہ کوئی سوال ذہن میں سر ہی نہیں اٹھاتا۔

سوال برائے سوال ،سوال برائے بحث اور سوال برائے ضد و عناد ، یہ شریف انسانوں کی خصلت نہیں ہے۔

دعا ہے کہ حضرت جی دامت برکاتہم کے وقت میں اللہ تعالیٰ زیادہ سے زیادہ برکت دے کہ ہم مہجوروں کی اصلاح کے لیے زیادہ سے زیادہ کتب لکھ سکیں۔

"تصوف و سلوک" کے متعلق زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آراء:

حضرت مولانا قاسم منصور مدظلہ:

"تصوف و سلوک" حقیقی اور جعلی تصوف کے  درمیان فرق کرتی ہے اور بندے کو اخلاص کی حقیقت سمجھاتی ہے۔اس لیے ہر درد مند مسلمان کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔

حضرت مولانا مفتی غلام رسول مدظلہ:

اس کے پڑھنے سے تصوف کی حقیقت سمجھ آتی ہے۔اس لیے ہر کسی کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

فقیر محمد اسلم نقشبندی مجددی:

موجودہ دور ذہنی انتشار کا دور ہے۔ہر دماغ میں ہزاروں شکوک و شبہات کے خیالات بھرے پڑے ہیں۔اس کتاب میں ایسے خوبصورت طریقے سے جواب دیے گئے ہیں کہ شکوک و شبہات کے جالے صاف ہو جاتے ہیں۔
مکمل تحریر >>