دارالعلوم دیوبند کا قیام:
1861ء میں پھر اللہ کے ایک مقبول بندے حضرت مولانا قاسم
نانوتوی ؒ کے دل میں خیال آیا کہ مسلمانوں سے ان کی دنیا تو چھین لی گئی، یہ کوئی
اتنا بڑا نقصان نہیں ہے لیکن مسلمانوں سے تو اب ان کا دین چھینا جارہا ہے۔یہ بہت
بڑا نقصان ہے۔لہذا اس کی تلافی کی کوئی صورت ہونی چاہئے۔ان کے سسرال دیوبند میں
تھا اور یہ چھوٹی سی بستی تھی۔چنانچہ 1867ء میں انہوں نے اس چھوٹی سی بستی میں ایک
دارالعلوم کی بیناد رکھی۔چھوٹی بستی کو اس لئے منتخب کیا گیا کہ بڑے شہر کی
سرگرمیاں حکومت وقت کی نظر میں فوراً آ جاتی ہیں، چھوٹی بستی سے کام شروع کریں گے
تو کسی کی نظر میں ہی نہیں آئیں گے۔واقعی ان کی بات سچ نکلی۔1867ء میں جب انہوں نے
یہ کام شروع کیا تو 30مئی کا دن تھا اور پندرہ محرم الحرام کی تاریخ بنتی تھی جب
دارالعلوم دیوبند کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔انار کے ایک درخت کے نیچے ایک استاد اور ایک شاگرد ، پڑھانے والے کا نام ملا
محمودؒ اور پڑھنے والے کا نام محمود حسنؒ۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ پہلا قدم جو
اٹھایا گیا ہے بالآخر اسے کتنا بڑا علمی مرکز بننا ہے۔ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کے
دلوں کو علمی معارف سے سیراب کرنا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا جب سنگ بنیاد رکھا جانے لگا تو حضرت
مولانا محمدقاسم نانوتوی ؒ نے یہ اعلان فرمایا کہ میں آج دارالعلوم دیوبند کا سنگ بنیاد
ایک ایسی ہستی سے رکھواؤں گا جس نے اپنی زندگی میں کبیرہ گناہ تو کیا کرنا ، دل
میں کبھی کبیرہ گناہ کرنے کا مصمم ارادہ بھی نہیں کیا۔
شاہ حسین احمدؒ کا تقویٰ:
مولانا اصغر حسین کاندھلوی ؒ کے ماموں شاہ حسین احمدؒ
"منے شاہ" کے نام سے مشہور تھے۔ان کا قد دیکھنے میں اتنا بڑا نہیں تھا
مگر اللہ تعالٰی کے یہاں بہت بڑا تھا۔وہ گھاس کاٹتے اور بیچ کر اپنی زندگی گزارتے
تھے۔وہ تھوڑے تھوڑے پیسے روزانہ بچاتے رہتے۔پورے سال میں ان کے پاس اتنے پیسے جمع
ہوجاتے تھے کہ دارالعلوم دیوبند کے تمام اساتذہ کی ایک مرتبہ وہ اپنے گھر میں دعوت
کرتے تھے۔اساتذہ لکھتے ہیں کہ ہم سارا سال ان کی دعوت کے منتظر رہتے کیوں کہ جس دن
ہم ان کے گھر کا کھانا کھاتے تھے چالیس دن تک ہمیں اپنی نمازوں کی حضوری میں
اٖضافہ محسوس ہوتا تھا۔ایسے پرہیز گار انسان نے دارالعلوم دیوبند کا سنگ بنیاد
رکھا۔
عابد
کے یقیں سے روشن ہے سادات کا سچا صاف عمل
آنکھوں
نے کہا دیکھا ہو
گا اخلاص کا ایسا
تاج محل
یہ اخلاص کا ایسا تاج محل بنا دیا کہ دنیا میں کوئی اس کی
مثال نہیں ملتی۔
یہ وہ پاکیزہ ہستیاں ہیں جن کے ہاتھوں سے رکھی ہوئی اینٹ
میں اتنی برکت پیدا ہوئی کہ اس دارالعلوم کو اللہ تعالٰی نے ایسی یونیورسٹی بنایا
کہ آج مشرق اور مغرب شمال اور جنوب غرض ہر طرف دارالعلوم کا فیض نظر آتا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فیض:
اللہ رب العزت نے اس عاجز کو دین کی نسبت سے دنیا کے چالیس
سے زیادہ ملکوں میں سفر کرنے کی توفیق بخشی۔اس جگہ بھی گئے جہاں چھ مہینے دن اور
چھ مہینے رات ہوتی ، سائبیریا میں بھی گئے جہاں ہر طرف یخ بستہ ہوائیں اور برف ہی
برف نظر آئی، ہم نے برف پر نمازیں پڑھیں، ایسی جگہ بھی دیکھی جس کو " دنیا کا
آخری کنارہ" کہتے ہیں۔حکومت نے یہ بات وہاں لکھی ہوئی ہے۔کیوں کہ جون کے
مہینے میں ایک ایسا دن آتا ہے جب وہاں پر قریباً ایک لاکھ سیاح اکٹھے ہوتے
ہیں۔وہاں پر ایک دلچسپ منظر یہ ہوتا ہے کہ سورج غروب ہونے کے لئے سمند کے پانی کے
قریب آتا ہے اور غروب ہونے کے بجائے دوبارہ طلوع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔اس لئے دنیا
کے سائنسدان اس جگہ کو دنیا کا آخری کنارہ کہتے ہیں۔افریقہ کے جنگل بھی دیکھے اور
امریکہ کی دنیا بھی دیکھی لیکن ایک بات عرض کردوں کہ یہ عاجز جہاں بھی گیا، آبادی
تھی یا جنگل تھا، پہاڑوں کی چوٹیاں تھیں یا زمین کی پستیاں تھیں، وہاں پر
دارالعلوم دیوبند کا کوئی نہ کوئی روحانی فرزند بیٹھا دین کا کام کرتا نظر آیا۔
"دارالعلوم دیوبند کو اتنی قبولیت حاصل ہوچکی ہے۔
"
جبالِ علم:
الحمد للہ یہ قبولیت عند اللہ ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں
اس مادر علمی کے روحانی فرزند بیٹھے ہوئے دین کا کام کر رہے ہیں اور لوگوں کے
سینوں کو نور سے بھر رہے ہیں۔بہرحال علماء دیوبند نے علمی کام جو شروع کیا تو یہاں
سے نکلنے والے طلبا جبال علم بن گئے۔ایک ایک طالب علم ایسا تھا کہ جو اپنے وقت کا
آفتاب اور ماہتاب ثابت ہوا۔یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا حتٰی کہ حضرت شیخ الہند
محمودالحسن ؒ نے اپنے اسلاف کے اس علمی و عملی تسلسل کو جاری رکھا۔انگریز کے خلاف
جہاد کی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
دارالعلوم دیوبند بمقابلہ علی گڑھ کالج:
مولانا مملوک علیؒ کے دو شاگرد تھے۔ایک کا نام تھا قاسم
نانوتوی ؒ انہوں نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی اور ایک کا نام تھا احمد خان
جو سرسید احمد خان کے نام سے مشہور ہوا۔بعد میں اس نے ایک کالج کی بنیاد رکھی۔علی
گڑھ میں اسی نے انگریزی زبان سکھانے کو زیادہ ترجیح دی جب کہ دارالعلوم دیوبند میں
خالصتاً دینی علوم کو پڑھانے پر زیادہ توجہ دی گئی تو یہ دونوں بڑی درس گاہیں اس
وقت کی تھیں۔علی گڑھ نے کلرک پیدا کئے لیکن دیوبند نے محدثین و مفسرین پیدا کئے
اور منبر و محراب کو سلامت رکھا۔
شیخ الہندؒ کی علی گڑھ آمد:
1920ء میں شیخ الہندؒ علی گڑھ تشریف لے گئے تو آپ نے وہاں
جا کر اپنے اسلاف کی اس تاریخ کو بیان کیا۔اس کو سن کر علی گڑھ کے طلبا میں دین کا
درد پیدا ہوا اور اس کے بعد پھر وہاں سے مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علی
اور شبلی نعمانی ؒ جیسی شخصیتیں پید ہوئیں۔یہ اصل میں شیخ الہندؒ کا وہ جذبہ جہاد
تھا جس نے طلبا کے دلوں کو سوزِعشق سے بھر دیا تھا۔جب آپ نے تقریر کر لی تو چند
طالب علموں نے ایک سوال پوچھا کہ آپ انگریز کے ساتھ صلح کیوں نہیں کر لیتے؟حضرت
شیخ الہندؒ نے اس موقع پر ایک عجیب شعر پڑھا
ہائے
یہ صرف تمنا کی زبان سے دوریاں
اس
قدر یہ سختیاں دشواریاں مجبوریاں
یاد ایام جفا آخر بھلائیں کس طرح
دل
فرنگی سے لگائیں تو لگائیں کس طرح
اس کے بعد ان طلبا کو پتہ چلا کہ ہمارے راستے جدا ہیں ہمارا
ایک دوسرےکے ساتھ اکٹھا ہونا مشکل ہے۔ان کا دین اور ہے اور ہمارا دین اور ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا علمی فیض:
دارالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کی جلیل
القدر شخصیت کا علمی فیض بہت زیادہ تھا۔شاہ جہان پور میں ایک مباحثہ ہوا کرتا تھا
جس میں ہندو اور عیسائی سب مذاہب کے لوگ آتے تھے۔حضرت نے وہاں جا کر اسلام کے
عنوان پر بیان کیا۔حتیٰ کہ غیر مسلموں کو لاجواب کر دیا۔آج کل مباحثہ شاہ جہان پور
کے نام سے بازاروں میں چھوٹا سا پمفلٹ ملتا ہے۔اللہ تعالٰی نے ان کو فلسفہ اور
منطق کا وہ علم دیا تھا کہ کوئی ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا تھا۔
شورش کشمیری ؒ کا اظہار عقیدت:
شورش نے حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کے بارے میں لکھا
شافع کون و مکان کی
راہ دکھلاتا
رہا
گمراہان
شرک
کو توحید سکھلاتا رہا
اس
صدی میں عصر حاضر کا فقیہ بے مثال
سنت
خیر
الورا کے زمزمے گاتا رہا
پرچم
اسلام ابر درخشاں کے روپ میں
بت
کدوں کی چار دیواری پر لہراتا رہا
مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور عشق رسولﷺ:
دل میں عشق رسولﷺ اس قدر تھا کہ ان کا تعتیہ کلام پڑھتے ہیں
تو حیران ہوجاتے ہیں چنانچہ نبی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شان میں عجیب اشعار لکھتے
ہیں۔
سب
سے پہلے مشیت کے انوارسے
نقش
روئے محمد بنایا گیا
پھر
اسی نور سے مانگ کر
روشنی
بزم
کون و مکاں کو سجایا گیا
وہ
محمد بھی احمد بھی
محمود بھی
حسن
فطرت کا شاہد بھی مشہود بھی
علم
و حکمت میں وہ غیر محدود بھی
ظاہراً
امیوں میں اٹھایا
گیا
نبی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شان میں عجیب اشعار کہا کرتے
تھے۔حج پر حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنے جوتے اتار دئے۔نازک بدن تھے کسی نے کہا، حضرت! آپ کے پاؤں زخمی ہو
جائیں گے۔فرمایا، ہاں میں نے جوتے اس لئے اتار دئے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ جس جگہ پر
میرے آقاﷺ کے مبارک قدم لگے ہوں قاسم نانوتوی کا جوتوں والا پاؤں عین اسی جگہ پر
پڑ جائے۔چنانچہ فرماتے ہیں۔
امیدیں
لاکھوں ہیں لیکن بڑی امید ہے یہ
کہ
ہو سگان مدینہ میں
نام
میرا
شمار
جیوں
تو ساتھ سگان حرم کے تیرے پھروں
مروں
تو کھائیں مدینہ کےمجھ کومرغ و مار
سبحان اللہ، عشق رسولﷺ سے ان کا دل بھرا ہوا تھا۔
ایک مرتبہ روضہ انور پر تشریف لے گئے تو وہاں جا کر عجیب
شعر کہے
دمکتا
رہے تیرے روضے کا
منظر
چمکتی
رہے تیرے روضے کی جالی
ہمیں
بھی عطا ہو وہ جذب ابو ذررض
ہمی بھی عطا ہو
وہ روح بلالیرض
ایک
مرتبہ آپ کو حجرہ مبارک کے اندر جانے کا موقع ملا جب حجرہ مبارک کے اندر گئے تو
واپسی پر آپ کے اوپر ایک عجیب کیفیت تھی۔لوگوں نے دیکھا کہ بڑا پرانور چہرہ اور
عجیب کیفیت ہے تو کسی شاگرد نے پوچھا کہ حضرت! اندر کیفیت کیا تھی؟تو حضرت نے
اشعار میں جواب دے دیا۔فرمایا
میرے آقا کا مجھ
پر تو اتنا کرم تھا
بھر دیا میرا دامن
پھیلانے سے پہلے
یہ اتنے کرم
کا
عجب سلسلہ تھا
نشہ رنگ لایا
پلانے سے پہلے
جب مدینہ طیبہ سے واپس ہونے لگے اور آخری وقت آپ نے روضہ
انور پر نظر ڈالی تو اس وقت آپ نے یہ شعر پڑھا۔
ہزاروں
بار تجھ پر اےمدینے
میں فدا ہوتا
جو
بس چلتا تو مرکر بھی نہ میں تجھ سے جدا
ہوتا
اللہ رب العزت کے محبوبﷺ کی محبت ان کے دل میں سمائی ہوئی
تھی۔
اتباع سنت:
نبی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اس محبت کی وجہ سے ایک ایک سنت
پر ان عمل تھا۔ایک مرتبہ حضرت نانوتویؒ کی موٹ کے وارنٹ جاری کر دئے گئے۔جب پتہ
چلا تو آپ روپوش ہوگئے۔روپوش ہونے کے پورے 3 دن بعد آپ باہر نکل آئے۔کسی نے کہا کہ
حضرت انگریز آپ کو ڈھونڈ رہا ہے اور آپ کی موت کے وارنٹ جاری ہیں۔آپ نے فرمایا،
میں نے اپنے آقا ﷺ کی زندگی پر غور کیا مجھے غار ثور میں روپوشی کے تین دن نظر آتے
ہیں۔لہذا میں بھی تین دن غائب رہا۔اس کے بعد باہر نکل آیا ہوں۔انگریز اگر پکڑ لیں
تو میں اپنی جان کا نذرانہ اللہ کے سپرد کر جاؤں گا۔سنت کا اتنا لحاظ اور خیال
رکھا کرتے تھے۔
مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور عشق رسولﷺ:
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اس دارالعلوم دیوبند کے
دوسرے سپوت تھے۔اپنے وقت کے بے مثال فقیہ تھے۔فتاویٰ رشیدیہ اکثر علماء کی نظروں
سے گزرتا رہتا ہے۔اللہ رب العزت نے ان کو قطب الارشاد بنا دیا۔چالیس سال تک حدیث
پاک کا درس دیا اور اتنی محبت کے ساتھ درس دیا کہ ایک مرتبہ طلبا کو درس حدیث پڑھا
رہے تھے کہ اچانک بارش شروع ہوگئی۔طلبا نے فوراً اپنی کتابیں بغل میں دبائیں اور
اپنے کمروں کی طرف بھاگے۔ان کے جوتے وہیں رہ گئے۔حضرت نے اپنے رومال کو وہیں
بچھایا اور ان طلبا کے جوتے اس رومال کے اندر رکھے، گٹھڑی بنائی اور اپنے سر پر
اٹھا کر کمرے میں لے آئے۔جب طلبا نے دیکھا تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔کہنے لگے حضرت!
آپ ہمارے جوتے اٹھا کر لے آئے۔ہم خود اٹھا لیتے۔آپ نے بڑی سادگی سے جواب دیا کہ جو
لوگ قال اللہ اور قال الرسول پڑھتے ہیں میں ان کے جوتے نہیں اٹھاؤں گا تو پھر اور
کیا کروں گا۔اندازہ لگائیے کہ ان حضرات کو نبی کریمﷺ کے ساتھ کیسی محبت تھی۔
کسی نے مسجد نبوی کی تھوڑی سے مٹی لاکر دی اور کہا حجرے کی
صفائی کرتے ہوئے میں یہ مٹی لے کر آیا ہوں تو آپ نے اس کو اپنی سرمہ کی شیشی میں
ڈال دیا۔فرمایا، اچھا اگر یہ روضہ انور کی مٹی ہے تو ہم اسے اپنی آنکھوں کا سرمہ
بنا لیں گے۔
آپؒ کو ایک مرتبہ مدینہ طیبہ کی چند کھجوریں ملیں۔آپ نے
شاگرد سے کہا کہ میرے جتنے دوست ہیں۔ان کی فہرست بناؤ اور ان کھجوروں کے اتنے حصے
کرو تاکہ سب کو ہدیہ بھیجیں۔اس نے کہا حضرت! یہ کھجور کا ٹکڑا تو بہت ہی چھوٹا
ہے۔فرمایا، اگر شریعت میں اجازت ہوتی تو میں تجھ سے بولنا چھوڑ دیتا۔اس لئے کہ
مدینہ کی کھجور کے ٹکڑے کو تو نے چھوٹا کہہ دیا۔یہ چھوٹے کا لفظ ہی استعمال کیوں
کیا۔اتنی محبت تھی۔چنانچہ کھجور کھا لیتے تو گٹھلی کو پیس کر اس کا برادہ منھ میں
لے کر اوپر سے پانی پی لیا کرتے تھے تاکہ وہ بھی جزو بدن بن جائے۔
حضرت شیخ الہند ؒ اور خوف خدا:
حضرت شیخ الہندؒ وہ
دارالعلوم دیوبند کے تیسرے سپوت تھے جنہوں نے انگریز کے خلاف آزادی حاصل
کرنے کے لئے بہت نمایاں کام کیا۔ان کے بارے میں شورش کشمیری لکھتے ہیں۔
گردش
دوراں کی سنگینی سے ٹکراتا رہا
مالٹا
میں نغمہ مہر و وفا گاتا رہا
مالٹا میں آپ کو قید کر دیا گیا۔پابند سلاسل رہے۔انکے کچھ
اور شاگرد حضرت مولانا حسین احمد مدنی، حضرت مولانا عزیز گل وغیرہ بھی ساتھ
تھے۔انگریز نے ان پر بہت سختیاں کیں۔مگر یہ اپنی بات پر ڈٹے رہے۔
ایک عجیب واقعہ کتابوں میں پڑھا ہے کہ جب انگریز نے یہ
فیصلہ کر دیا کہ ان کو پھانسی دے دی جائے تو یہ اطلاع ملنے کے بعد حضرت شیخ الہندؒ
پر بہت گریہ طاری رہتا تھا۔آپ نے بہت زیادہ رونا شروع کردیا۔آپ کے شاگرد حیران
ہوتے کہ ہمیں پھانسی کا حکم ہوگیا ہے تو یہ خوشی کی بات ہے لیکن جب اپنے شیخ کو
دیکھتے تو وہ خوب کثرت کے ساتھ روتے اور گریہ و بکا صبح و شام کرتے نظر آتے ہیں۔دل
اتنا نرم ہوچکا تھا کہ ذرا ذرا سی بات پررونے لگ جاتے۔حتی کہ حضرت مولانا مدنیؒ
اور حضرت مولانا عزیز گلؒ نے دل میں سوچا کہ ہم کسی وقت حضرت کی خدمت میں عرض کریں
گے کہ اتنا رونے کی کیا وجہ ہے۔اگر پھانسی کا حکم آچکا ہے تو یہ خوشی کی بات ہے۔اس
میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔
چنانچہ ایک موقع پر کھانے سے پہلے انہوں نے عرض کیا کہ
حضرت! آپ آج کل بہت زیادہ روتے ہیں، آپ کے اوپر بہت زیادہ گریہ طاری ہوتا ہے آخر
کیا وجہ ہے۔پھانسی کا حکم صادر ہوچکا ہے تو یہ خوشی کی بات ہے۔اللہ تعالٰی ہماری
جان کو اپنے راستے میں قبول کر لیں گے۔یہ تو کوئی ایسی رونے والی بات نہیں ہے۔جب
انہوں نے یہ بات کہی تو حضرت شیخ الہندؒ نے اس وقت ان کو ذرا رعب بھری نظروں سے
دیکھا۔کہتے ہیں کہ ہمارے تو اس وقت پسینے چھوٹ گئے کہ حضرت اتنے جلال سے ہمیں دیکھ
رہے ہیں اور پھر اس کے بعد فرمایا کہ تم کیا سمجھتے ہو، میں موت کے خوف سے یا
پھانسی کے خوف سے نہیں روتا بلکہ میرے ذہن میں کوئی اور بات ہے۔انہوں نے عرض کیا،
حضرت! پھر کچھ ہمیں بھی بتا دیجئے۔حضرت نے فرمایا میرے دل میں یہ بات آگئی کہ اللہ
رب العزت بے نیاز ہیں، میں اس کی شان بے نیازی کی وجہ سے روتا ہوں۔اس لئے کہ کبھی
کبھی وہ بندے سے جان بھی لے لیا کرتا ہے اور اس کی جان کو قبول بھی نہیں کیا
کرتا۔میں تو اس لئے روتا ہوں کہ اے اللہ! اگر تو نے جان لیتے کا فیصلہ کر لیا ہے
تو میرے مولا! اس کو قبول بھی فرمالینا۔
تشدد کی انتہا:
حکیم اجمل خان آپ کے مریدین میں سے تھا۔آپ بیمار تھے اور اس
کے یہاں علاج معالجہ کے لئے آئے ہوئے تھے۔وہیں 1920ء میں آپ کی وفات ہوئی اور وہیں
سے جنازہ اٹھایا گیا۔جب ان کو غسل دیا جانے لگا تو غسل دینے والے نے دیکھا کہ آپ
کی پشت کے اوپر گہرے زخم کے نشان موجود ہیں۔ایسی پشت کبھی دیکھی نہیں تھی۔لوگ
پریشان تھے کہ آخر یہ کیا بات تھی کہ آپ کی پشت پر اتنے گہرے گہرے نشان ہیں۔
حضرت مدنی ؒ اس وقت کلکتہ میں تھے۔وہ بھی وفات کی خبر سن کر
وہاں پہنچے۔جب ان سے پوچھا گیا تو حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ نے اس وقت راز فاش
کیا اور کہا کہ اصل میں مالٹا میں ان کو آگ کے انگاروں پر لٹایا جاتا اور انگریز
کہتا کہ تم ہمارے ساتھ وفاداری کا عہد کرو اور ہمارے حق میں فتویٰ دو، ورنہ ہم
تمہیں آگ کے انگاروں پر لٹائے رکھیں گے۔حضرت کے خون سے آگ کے انگارے بجھتے ، اتنی
تکلیف اٹھاتے مگر انگریز سے کہتے رہتے، انگریز! میں کبھی تیرے حق میں فتویٰ نہیں
دے سکتا۔ارے میں بلال رضی اللہ عنہ کا وارث ہوں، جن کو ریت کے اوپر لٹایا جاتا تھا
اور سینے پر چٹانیں رکھ دی جاتی تھیں۔میں تو خبیب رضی اللہ عنہ کا وارث ہوں جن کی
کمر کے اوپر زخموں کے نشانات تھے۔میں تو امام مالک ؒ کا وارث ہوں جن کے چہرے پر
سیاہی مل کے ان کو مدینہ بھی میں پھرایا گیا تھا۔میں تو امام ابوحنیفہؒ کا وارث ہوں جن کا جنازہ جیل سے نکلا تھا۔میں
تو امام احمد بن حنبلؒ کا وارث ہوں جن کو ستر کوڑے لگائے گئے تھے۔میں علمی وارث
ہوں، حضرت مجدد الف ثانیؒ کا میں روحانی فرزند ہوں، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کا،
بھلا میں تمہاری اس بات کو کیسے قبول کر سکتا ہوں۔چنانچہ سب تکالیفوں کو برداشت کر
لیتے تھے مگر زبان سے انگریز کے حق میں کوئی بات نہیں کہتے تھے۔یہ ان کی قربانیاں
تھیں بالآخر انگریز کو پیچھے ہٹنا پڑا۔انگریز نے پہلے فیصلہ کیا تھا کہ ان کو
پھانسی پر لٹکا دیا جائے بالآخر اس نے فیصلہ کیا کہ پھانسی نہیں دیتے چلو چھوڑ
دیتے ہیں۔چنانچہ انگریز کو فیصلہ بدلنا پڑا۔اللہ رب العزت نے ان کی عزم و استقامت
کی وجہ سے ان کو کامیابی عطا فرما دی۔کتنی عجیب جات کہی:
حالات
کے قدموں میں قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے
جو ستارہ تو زمین پہ نہیں گرتا
گرتے
ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن
کسی دریا میں
سمندر
نہیں گرتا
آپ تو سمندر تھے بھلا دریا میں کیسے گر سکتے تھے۔آپ کے اس
عزم و استقامت کو سلام کرنا چاہیے۔اس وجہ سے اللہ رب العزت نے آپ کو یہ عظمت عطا
فرمائی کہ الحمدللہ آپ کا علمی فیض خوب پھیلا۔
مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا علمی مقام:
حضرت اقدس تھانوی ؒ بھی اسی مادر علمی کے فرزند ارجمند
تھے۔اللہ رب العزت نے ان کو علم کا وہ مقام عطا فرمایا تھا کہ ایک ہی وقت میں مفسر
بھی تھے، فقیہ بھی تھے اور صوفی بھی تھے۔اللہ رب العزت نے دین کے ہر شعبے میں ان
کو بلند مقام عطا فرمایا تھا۔زمانہ طالب علمی سے آپ کے اندر علمی جواہر نظر آرہے
تھے۔چنانچہ فارغ التحصیل ہوئے تو دارالعلوم کی انتطامیہ نے فیصلہ کیا کہ ان طلباء
کی دستار بندی کی جائے۔آپ اپنے چند طلباء اور ساتھیوں کو ساتھ لے کر حضرت شیخ
الہندؒ کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ حضرت ہم ایک فریاد لے کر آئے ہیں۔آپ اسے پورا
کر دیجئے۔پوچھا ، کون سی بات ہے؟عرض کرنے لگے کہ حضرت! ہم نے کتابیں تو مکمل کر
لیں، ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مدرسہ کی انتظامیہ ہماری دستار بندی کروانا چاہتی ہے۔ہم
اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ ہم اس قابل نہیں، اگر ہماری دستار بندی کروا دی گئی تو
دارالعلوم کی بدنامی ہوجائے گی کہ ایسے نالائق طلباء کی دستار بندی کروا دی ہے۔آپ
مہربانی فرمائیے اور دستار بندی نہ کروائیے۔جب انہوں نے یہ بات کہی تو شیخ الہند ؒ
کو جلال آگیا، فرمایا اشرف علی ! تم اپنے اساتذہ کے مانے رہتے ہو اس لئے تمہیں
اپنا آپ نظر نہیں آتا، جب ہم نہیں ہوں گے تو پھر تم ہی تم ہوگے اور واقعی ہی ہوا
کہ جب یہ اساتذہ فوت ہوگئے تو پھر حضرت تھانویؒ کے علوم کا ڈنکا بجا کرتا
تھا۔سبحان اللہ ، تھانہ بھون کی خانقاہ اصلاح کے لئے اپنی مثال آپ تھی۔
کتابو ں کی تعداد:
ایک صاحب نے حضرت تھانوی ؒ کی شخصیت کے اوپر پی-ایچ – ڈی کی۔اس نے حضرت تھانویؒ کی 2800
کتابوں کی فہرست بنائی جنہیں آپ نے اپنی زندگی میں خود لکھا یا ہدایات دے کر اپنے
شاگردوں سے لکھوائیں۔
حضرت کشمیری ؒ کا بے مثال حافظہ:
حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں
کہ اللہ رب العزت نے ان کو وہ قوت حافظہ عطا کی تھی کہ اس کی مثال اس قریب کے دور
میں کہیں نہیں ملتی۔مرزائیوں نے بہاولپور میں جب انگریز کی عدالت کے اندر مقدمہ
لڑا اس وقت انہوں نے ایک تحریر پیش کی جس تحریر سے ان کے حق میں کوئی بات ثابت
ہوتی تھی۔اس تحریر کو پڑھ کر یہی محسوس ہوتا تھا کہ ان کی بات سچی ہے۔انگریز جج نے
حضرت کشمیری ؒ سے کہا کہ یہ تو جو بات کر رہے ہیں اس کی دلیل بھی دے رہے ہیں۔تو
حضرت نے فرمایا کہ ذرا یہ کتاب مجھے دکھا دیں۔آپ نے کتاب دیکھی اور فرمایا کہ یہ
لوگ دھوکہ دینا چاہتے ہیں،، میں دھوگے میں آنے والا نہیں۔میں نے آج سے 27 سال پہلے
یہ کتاب دیکھی تھی اور مجھے عبارت آج بھی
یاد ہے۔انہوں نے درمیان سے ایک سطرکو حذف کردیا ہے، لہذا دوسرا نسخہ منگوایا جائے۔چنانچہ
دوسرا نسخہ منگوایا تو اس میں وہ سطر واقعی موجود تھی۔جس سے مطلب مسلمانوں کے حق
میں آتا تھا اور ان مرزائیوں کی دھوکہ دہی بے نقاب ہوگئی۔لوگ حیران ہوگئے کہ 27
سال پہلے دیکھی ہوئی کتاب کا متن اس وقت بھی زبانی یاد تھا۔اللہ رب العزت نے بے
مثال قوت حافظہ ان کو عطا فرمائی تھی۔
(ایک کتاب تھی جامعۃ الازہر میں ان کے استاد نے بھیجا کہ جا
کر کتاب نقل کر کے لے آؤ۔ازہر والوں نے کہا کتاب پڑھ سکتے ہو لکھ نہیں سکتے۔انہوں
نے کہا مہربانی کرو میں دارلعلوم دیوبند سے آیا ہوں،اور اس زمانے میں تو کرایہ خرچ
کرنا بڑی مشکل سی بات تھی۔انہوں نے کہا کہ اگر لکھنے کی ہم اجازت دے دیتے تو تم
اتنا سفر کر کے کیوں آتے؟خیر شاہ جی ؒ نے کتاب پڑھ لی اور واپس تشریف لے آئے۔ان کے
استاد نے انہیں بلایا اور پوچھا انور شاہ کتاب نقل کر لی ہے؟کہا میں نے وہ کتاب
پڑھ تو لی ہے لیکن وہ کتاب نقل کرنے نہیں
دیتے۔استاد کے چہر ے پر غم کے بادل چھا گئے ، فرمایا انور شاہ! سفر بھی کیا ،
مدرسے کا خرچ بھی ہوا اور کام بھی نہ
بنا۔شاہ جی ؒ چپ کر کے اٹھ کے چلے گئے اور رات کو اپنے حافظے کے زور پہ کتاب لکھ
کر استاد کو پیش کردی۔کہا حضرت میں نے یہ کتاب پڑھی تھی۔حضرت نے کہا اس کی کاپیاں
کرو،کئی نسخے بنا لیے گئے ،ایک نسخہ جامعۃ الازہر کو بھیجا گیا کہ بھئی اس کو ملا
کر تو دیکھ لو کوئی غلطی تو نہیں رہ گئی۔انہوں نے جب کتاب کو ملایا دیکھا شروع سے
لے کر آخر تک کوئی غلطی نہیں تھی۔انہوں نے اس کتاب میں لکھا " امام بخاری کے حافظے کے بعداگر ہم
نے کوئی دیکھا ہے تو وہ انور شاہ کشمیری ؒ ہے" )از بیان مولانا محمد خیر
المعروف مولانا مکی دامت برکاتہم عالیہ
ہندوؤں کا قبول اسلام:
چند ہندو آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوگئے۔لوگوں نے ہندوؤں سے
کہا کہ تم مسلمان کیوں ہوگئے تو انہوں نے حضرت کشمیریؒ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ
چہرہ کسی جھوٹے انسان کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔ہم نے یہ چہرہ دیکھ کر اسلام قبول کر
لیا ہے۔اللہ رب العزت نے ایسا کمال عطا کیا تھا۔
حضرت مدنی ؒ اور عشق رسولﷺ
حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے دل میں اللہ رب العزت نے
عشق رسولﷺ خوب بھر دیا تھا۔ان کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ ذی الحجہ کے جب پہلے
دس دن آتے تو ان کی طبیعت کے اندر بے قراری آتی۔چنانچہ ذی الحجہ کے ان دس دنوں میں
جسم یہاں ہوتا مگر دل وہاں ہوتا۔سارا دن وہیں کے بارے میں سوچتے رہتے حتیٰ کہ دستر
خوان پر روٹی کھانے بیٹھتے تو بعض اوقات روٹی کھاتے اٹھتے جاتے اور کھڑے ہوکر
کہتے، معلوم نہیں عشاق کیا کر رہے ہوں گے۔کوئی غلاف کعبہ کو پکڑ کر دعائیں مانگ
رہا ہوگا، کوئی مقام ابراہیم پر سجدہ ریز ہوگا، تو آپ ان کا تصور ذہن میں لا کر
کہتے معلوم نہیں عشاق کیا کر رہے ہوں گے۔اس طرح آپ کو کھانا اچھا نہ لگتا، کبھی
آسمان کی طرف دیکھ کر کہتے، معلوم نہیں عشاق کیا کر رہے ہوں گے۔
اللہ رب العزت کو یہ بات پسند آئی تو اللہ تعالٰی نے حرمین
شریفین کا دروازہ ان کے لئے کھول دیا۔ایک مرتبہ آپ مدینہ طیبہ تشریف لے گئے۔آپ
ہندوستان کے ان برگزیدہ علماء میں سے ہیں جن کو اٹھارہ سال مسجد نبویﷺ میں درس
حدیث کی توفیق نصیب ہوئی۔سبحان اللہ، وہاں حدیث پڑھاتے ہوئے ادھر گنبد حضرا کی طرف
اشارہ کرکے فرمایا کرتے تھے "قال ھذا النبی صلی اللہ علیہ وسلم "۔
جرأت ہوتو ایسی:
اللہ رب العزت نے دل میں جرت اتنی دی تھی کہ جب وینہ ہال
کراچی میں انگریز نے ان کو عدالت کے اندر حاضر کیا تو انگریز نے کہا، کہ حسین
احمد! تمہیں پتہ ہے کہ تم نے ہمارے خلاف فتویٰ دیا ہے۔اس کا نتیجہ کیا ہے۔آپ نے
فرمایا، کہ ہا ں مجھے پتہ ہے۔اس نے کہا، کیا پتہ ہے؟آپ نے اپنے کندھے کی سفید چادر
اس کو دکھا دی۔انگریز نے کہا کہ یہ کیا ہے؟فرمایا، کہ یہ میرا کفن ہے جو میں اپنے
کندھے پر لئے پھرتا ہوں۔زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ میری موت کا حکم صادر ہوجائے
گا۔مجھے پھانسی چڑھا دی جائے گی تو مجھے کسی سے اپنا کفن مانگنے کی بھی ضرورت نہیں
ہوگی۔
فنا
فی اللہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے
جسے
مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ورثۃ الانبیاء ہونے کا حق ادا کردیا
تھا۔
متقدمین کا قافلہ:
علمائے دیوبند کے بارے میں شاہ جی ؒ فرمایا کرتے تھے کہ
"صحابہ کرام کا ایک قافلہ جا رہا تھا ان میں سے چند ارواح کو اللہ تعالٰی نے
پیچھے روک لیا۔یہ وہی روحیں تھیں جن کو اس دور کے اندر پیدا کر دیا تاکہ بعد میں
آنے والے متاخرین متقدمین کی زندگی کے نمونے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔"
اور واقعی ان کی اتباع سنت کو دیکھیں، ان کے تقویٰ کو دیکھیں
تو یہی نظر آتا ہے کہ سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک یہ حضرات نبی علیہ
الصلٰوۃ والسلام کی سنتوں سے سجے ہوئے تھے۔
اللہ کی طرف سے چناؤ:
یہ کوئی اتفاقی باتیں نہیں تھیں بلکہ یہ اللہ تعالٰی کی طرف
سے چناؤ معلوم ہوتا ہے۔دیکھئے ایک روایت میں آتا ہے کہ ہر صدی کے آخر پر اللہ
تعالٰی ایک بندے کو پیدا فرماتا ہے جو مجدد ہوتا ہے۔جو دین کی تجدید کا کام کرتا
ہے، جو شرک و بدعات و رسومات کو ختم کر دیتا ہے اور نبی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی
سنتوںکو دوبارہ زندہ کردیتا ہے تو 100 سال کے بارے میں حدیث پاک میں بھی اس کاتذکرہ
ہے۔تو علمائے دیوبند چنے ہوئے لوگ تھے۔اگر ان کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو ان کی
زندگیوں میں عجیب تناسب نظر آتا ہے۔آپ کے سامنے دو تین مثالیں بیان کی جاتی ہیں۔
آپ ذرا غور کیجئے کہ حضرت شاہ عبد العزیزؒ کی وفات 1239ھ
میں ہوئی اور حضرت شیخ الہندؒ کی وفات 1337ھ میں ہوئی۔تقریباً سو سال کا فرق
ہے۔شاہ عبد العزیزؒ بھی مجاہد تھے، شیخ الہند ؒ بھی مجاہد تھے، شاہ عبد العزیز ؒ
نے انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے دیا تھا اور شیخ الہندؒ نے اس فتویٰ کے اوپر
عمل کرکے دکھا دیا تھا۔تقریباً ایک سو سال کے بعد ان کی وفات ہورہی ہے۔100 سال کا
وقفہ اتفاقی بات نہیں تھی۔بلکہ یہ قدرت کا چناؤ نظر آتا ہے۔
حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کی وفات 1246ھ میں ہوئی
اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی وفات 1346ھ میں ہوئی۔حضرت مولانا خلیل احمدؒ نے شرک و
بدعت کو ختم کیا تو شاہ اسماعیل شہیدؒ نے تقویۃ الایمان لکھ کر شرک کی جڑیں کاٹ کے
رکھ دیں۔مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ نے بھی بدعات کا قلع قمع کردیا تھا۔ان دونوں
کی وفات میں بھی پورے 100 سال کا فرق بنتا ہے۔
علامہ شامیؒ کی وفات 1252ھ میں ہوئی تو علامہ انورشاہ
کشمیریؒ کی وفات 1352ھ میں ہوئی۔حضرت علامہ شامیؒ بھی علم کے سمندر تھے اور حضرت
کشمیری ؒ بھی علم کے سمندر تھے۔یوں لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک چناؤ ہے۔ایک
بندہ دنیا سے رخصت ہوتا تھا اللہ دوسرے بندے کو پیدا فرما دیتے ہیں اور آئندہ آنے
والے 100 سال میں وہ بندہ کام کرتا تھا۔
اللہ تعالٰی نے علمائے اہل سنت والجماعت دیوبند سے دین کا
کام لیا تو ہمارا ان کے ساتھ روحانی، علمی تعلق ہے۔الحمدللہ آج ان حضرات کے علمی
فرزند موجود ہیں۔جن حضرات نے نبی علیہ السلام کی ایک ایک سنت پر عمل کیا اور انہوں
نے دین کے پرچم لہرا دیئے۔انگریز کے خلاف جہاد کیا جس کی وجہ سے آج ہم آزادی کا سانس
لے رہے ہیں۔ہمارا علمی رشتہ ان سے لے کر نبی کریمﷺ تک پہنچتا ہے۔
ہم ٹپکے کے آم نہیں:
ہم کوئی ٹپکے کے آم نہیں ہیں آپ نے یہ الفاظ پہلے بھی سنے
ہوں گے کہ آم کا باغ ہوتا ہے تو اس میں مختلف نسل کے آم ہوتے ہیں۔باغ کا مالی جس
درخت سے آم توڑتا ہے تو وہ ٹوکری میں ڈال کر نام لکھ دیتا ہے کہ یہ فلاں نسل کے آم
ہیں۔چنانچہ منڈی میں آکر آم نسل کے نام سے بکتے ہیں۔نام کی وجہ سے ان کی قیمت
زیادہ لگتی ہے۔لیکن کچھ آم ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو پرندے خود توڑ کے پھینک دیتے
ہیں۔وہ بہت سارے آپس میں مل جاتے ہیں تو ان کا پتہ نہیں چلتا کہ یہ کس نسل کے
ہیں۔ان کو باغ والا آدمی ٹوکری بھر دیتا ہے اور لکھ دیتا ہے کہ یہ ٹپکے کے آم
ہیں۔مجھے ان کی نسل کا پتہ نہیں ہے۔ٹپکے
کے آم کریدنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔
ہم رات کے اندھیرے میں نہیں بلکہ دن کی روشنی میں کہتے ہیں
کہ ہم ٹپکے کے آم نہیں ہیں بلکہ ہمارا
علمی رشتہ نبی آخر الزماں تک پہنچتا ہے۔علمائے دیوبند کو اللہ رب العزت نے جو علمی
کمالات عطا کئے الحمدللہ ان علمی کمالات کا رشتہ نبی علیہ الصلٰوۃ والسلام تک
پہنچتا ہے۔چنانچہ علماء دیوبند کے سرخیل امام حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ تھے۔
٭حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے دین سیکھا حضرت شاہ عبد
الغنیؒ سے
٭حضرت شاہ عبدالغنیؒ نے دین سیکھا شاہ حضرت اسحاقؒ سے
٭حضرت شاہ اسحاقؒ نے دین سیکھا حضرت شاہ عبدالعزیزؒسے
٭حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ نے دین سیکھا حضرت شاہ ولی اللہ محدث
دہلویؒ سے
٭حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے دین سیکھا حضرت ابو طاہر
مدنیؒ سے
٭حضرت شیخ ابوطاہر مدنی ؒ نے دین سیکھا حضرت حسام الدینؒ سے
٭حضرت شیخ حسام الدینؒ نے دین سیکھا حضرت ربیع بن سعیدؒسے
٭حضرت ربیع بن سعیدؒ نے دین سیکھا حضرت ابواسحاق مدنیؒ سے
٭حضرت بو اسحاق مدنیؒ نے دین سیکھا حضرت امام محمد بن
اسماعیل بخاریؒ سے
٭حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ نے دین سیکھا حضرت امام
محدث یحیی بن معینؒ سے
٭ حضرت امام محدث یحیی بن معینؒ نے دین سیکھا حضرت امام ابو
یوسفؒ سے
٭حضرت امام ابویوسفؒ نے دین سیکھا حضرت امام اعظم ابو
حنیفہؒ سے
٭حضرت امام ابو حنیفہؒ نے دین سیکھا حضرت امام حمادؒسے
٭حضرت امام حمادؒ نے دین سیکھا حضرت عبداللہ بن مسعودرض
٭حضرت عبداللہ بن مسعودرض نے دین سیکھا حضرت محمدﷺ سے
الحمدللہ ثم الحمدللہ کہ ہماری یہ علمی اور روحانی نسبت نبی
علیہ السلام کے ساتھ جا کر ملتی ہے۔
ذکر کا بنیادی مقصد:
حضرت تھانوی ؒ فرماتے تھے کہ ذکر کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے
کہ انسان کے رگ رگ اور ریشے ریشے سے گناہوں کا کھوٹ نکل جائے۔جو اذکار بتلائے جاتے
ہیں اور تزکیہ نفس کی جو محنت کروائی جاتی
ہے اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس ذکر کے کرنے سے اندر ایسی کیفیت آجاتی ہے کہ دل
منور ہوجاتا ہے۔پھر اللہ تعالٰی علوم و معارف کی بارشیں کردیاکرتے ہیں۔
علوم و معارف کی بارش:
حضرت تھانویؒ اپنے بارے میں خود فرماتے ہیں کہ ہم شیخ
الہندؒ سے جلالین شریف پڑھا کرتے تھے اور میں تکرار کے وقت طلباء کا مانیٹر
تھا۔میرے ذمے تکرار ہوتی تھی۔ایک دفعہ تکرار کرتے ہوئے ایک اشکال وارد ہوا جو رفع
ہی نہیں ہوتا تھا۔سب طلباء نے سوچا مگر کسی کے ذہن میں جواب نہیں آیا۔بالآخر سب
طلباء نے کہا کہ تم چوں کہ ذمہ دار ہو اس لئے کل کے درس سے پہلے حضرت سے اس کا
جواب پوچھ لو۔میں نے کہا بہت اچھا۔اگلے دن میں نے جلالین شریف اپنی بغل میں لی اور
فجر کے لئے مسجد میں آگیا۔
سردی کا موسم تھا میں نے فجر کی نماز پڑھتے ہی حضرت شیخ
الہندؒ کے قریب جانے کی کوشش کی۔مسجد کے ساتھ ہی ان کا حجرہ تھا۔میرے جانے سے پہلے
وہ حجرے میں تشریف لے گئے اور دروازے کی کنڈی بند کرلی۔میں دیر سے پہنچا۔میں نے دل
میں سوچا کہ اشرف علی!تجھے اپنے نفس کو سزا دینی چاہئے کہ نکلنے میں تاخیر کیوں
ہوئی۔چنانچہ سردی کے موسم میں میں دروازے کے باہر کھڑا ہوگیا کہ جب حضرت اشراق پڑھ
کر نکلیں گے تو میں حضرت سے ان کا جواب پوچھ لوں گا۔فرماتے ہیں کہ میں سردی سے
ٹھٹھر رہا تھا لیکن ذرا کان جو لگائے تو اندر حضرت بیٹھے لاالٰہ کا ذکر کر رہے
تھے۔فرمایا ذکر تو حضرت کر رہے تھے لیکن سن کر مزہ مجھے آرہا تھا۔ اللہ رب العزت
نے ان کو وہ ذوق عطا کیا تھا کہ لاالٰہ کی ضربوں سے سننے والوں کو وجد آجاتا تھا۔
حضرت نے اشراق پڑھی تو اس کے بعد دروازہ کھولا، میں حیران
ہوا کہ سردی کے موسم میں شیخ الہندؒ کی پیشانی پر پسینے کے قطرے تھے۔ذکر کی حرارت
پیشانی پر پسینے کی شکل میں ظاہر ہورہی تھی۔مجھے دیکھ کر فرمایا، اشرف علی! تم
یہاں کیسے کھڑے ہو؟میں نے کہا، حضرت! ایک بات پوچھنی ہے۔میں نے کتاب کھول دی۔حضرت
نے دیکھا تو اس کے متعلق تقریر فرمانی شروع کردی۔کہتے ہیں کہ حضرت تقریر فرماتے
رہے،الفاظ بھی میرے لئے غیر مانوس تھے اور معانی بھی کچھ سمجھ نہیں آرہے تھے۔حضرت
نے تقریر فرما کر کہا، اشرف علی ! تم سمجھ گئے ہو؟میں نے کہا، حضرت ! کچھ سمجھ
نہیں آئی۔میں نے دل میں کہا، حضرت!کچھ نزول فرمائیے تاکہ مجھے بھی بات سمجھ
آسکے۔حضرت نے دوبارہ تقریر کرنی شروع کردی۔دوبارہ جب تقریر کی تو الفاظ تو مجھے
کچھ مانوس محسوس ہوتے تھے، سنے ہوئے تھے لیکن مطلب پھر بھی سمجھ میں نہیں آرہا
تھا۔حضرت نے تقریر مکمل کی۔دوسری مرتبہ فرمایا، اشرف علی! اب تمہیں بات سمجھ
آئی۔میں نے کہا، حضرت! اب بھی سمجھ میں نہیں آئی۔حضرت نے فرمایا، اشرف علی! میری
اس وقت کی باتیں تمہارے فہم و ادراک سے بالا ہیں لہذا کسی اور وقت میں مجھ سے پوچھ
لینا۔
الحمد للہ ہم ان اساتذہ کے شاگرد ہیں جو اللہ رب العزت کا
ذکر کرتے تھے تو علوم و معارف کی اتنی بارش ہوتی تھی کہ ایک ہی مضمون کو کئی کئی
انداز سے بیان کرتے تھے مگر سمجھنے والوں کے فہم و ادراک سے بالا ہوا کرتی تھیں۔
اللہ رب العزت ہمیں ان اسلاف کے نقش قدم پر زندگی گزارنے کی
توفیق عطا فرمادے، ہمیں اپنے آپ پر محنت کرنے اور اپنے علم پر عمل کرنے کی، اپنے
اندر سے دورنگی ختم کرنے کی اور اپنے اندر سے معصیت ختم کرنے کی توفیق عطا
فرمادے۔آمین ثم آمین۔