Thursday, March 17, 2016

لاہور تا خاکِ بخارا و سمر قند (سفر نامہ روس)

زندگی ایک سفر ہے اور جب یہ سفر دین کے لیے کیا جائے تو یہ سفر بھی عبادت بن جاتا ہے۔حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم نے 1992ء میں روس کا سفر کیا اور بے شمار لوگ آپ کے ہاتھ پر توبہ تائب ہوئے اور بہت سے لوگ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے۔ا ن حالات و واقعات کو نصیحت اور عبرت کی نظر سے لوگوں کے ےفائدے کے لیے پیش کیا گیا ہے، تاکہ لوگ خوابِ غفلت کو چھوڑیں اور سچی اور سُچی زندگی گزارنے کا مصمم ارادہ کریں۔
سفرنامہ کے متعلق مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آراء:

حضرت مولانا قاسم منصور مدظلہ:

سفر نامے کے متعلق کیا بیان کریں،بس سفر نامہ انسان پڑھتا رہے اور روتا رہے۔

حضرت مولانا صاحبزادہ حافظ حبیب اللہ مدظلہ:

سفرنامے کو دو تین دفعہ پڑھا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ساتھ ساتھ سفر کررہے ہوں۔پہلے  ابو کی الماری میں تھا پڑھنے کے بعد میرے الماری میں آگیا۔

حضرت مولانا صاحبزادہ حافظ سیف اللہ مدظلہ:

سفرنامے کو دو دفعہ پڑھا ہے، تمنا ہے کہ اور بھی پڑھوں۔دل چاہتا ہے سفر میں ابو جی کے ساتھ رہوں اور کام کرتے ہوئے دیکھوں۔

حضرت مولانا اظہر صاحب:

سفرنامہ کو ہر طبقے کے لوگ پسند کرتے ہیں اور ان پر زبردست اثرات ہوتے ہیں۔اس لیے پہلی فرصت میں ہر کسی کو پڑھنا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پڑھانا چاہیے،تاکہ وہ بھی فائدہ اٹھائیں۔اس سے آداب کا پتہ چلتا ہے خصوصاً نوجوانوں کی تربیت کے لیے بہترین ہے۔

حضرت مولانا مفتی غلام رسول مدظلہ:

سفرنامہ پڑھ کر صحابہ کرام  کی یاد تازہ ہوتی ہے کہ اولیاء اللہ نے صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا دھن من تن دین کے لیے لگا دیا۔

انجم خلیل نقشبندی مجددی:

سفرنامہ پڑھتے ہوئے گویا یوں محسوس ہوا کہ شہر شہر ، گلی گلی، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، مسجدوں میں ،مزارات پر، خصوصی نشستوں اور مجالس میں حضرت جی جہاں جہاں ہوں یہ عاجز بھی گویا ساتھ ساتھ ہے۔سفرنامہ ایک دفعہ پڑھا سیری نہ ہوئی ، دوسری دفعہ پڑھا ، تیسری دفعہ پڑھا، چوتھی دفعہ حتیٰ کہ گیارہ دفعہ پڑھ لیا، لیکن:
دل ہے کہ تیری یاد سے بھرتا نہیں

ڈاکٹر اکرم صاحب(سرگودھا):

سفرنامہ کی یہ خوبی ہے کہ گھر بیٹھے بٹھائے انسان مطالعہ کے وقت ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا محسوس کرتا ہے۔سفرنامہ پڑھ کر اللہ والوں کے ساتھ اللہ کی مدد کا کامل یقین پیدا ہوتا ہے۔

مولانا عثمان صاحب(جھنگ):

سفرنامہ میں حضرت جی دامت برکاتہم کی محنت و مجاہدہ نے بہت متاثر کیا کہ دن دیکھا نہ رات دیکھی اور نسبت کے پھیلانے کا حق ادا کردیا۔

ڈاکٹر محسن مدظلہ(جھنگ):

سفرنامہ کو پڑھ کر شدید خواہش ہوئی کہ حضرت جی کی زیارت کروں۔ملتان میں زیارت ہوئی، بیعت ہوئے اور اس طرح زندگی کا  "ٹریک" تبدیل ہوا۔واقعی! یہ ایک انقلابی کتاب ہے۔

فقیر محمد اسلم نقشبندی:

اس سفرنامہ میں حضرت جی دامت برکاتہم کے آزاد ریاستوں کے سفر کے حالات اور مشائخ نقشبندیہ کے مزارات پر حاضری کے حالات و تاثرات لکھے گئے ہیں، جس کی وجہ سے یہ سفر نامہ مشائخ نقشبندیہ کا گل سر سبد بن گیا ہے۔سفرنامہ میں مشائخ کی قوی توجہات محسوس ہوتی ہیں اور وہاں کے لوگوں کے محبت و آداب کے انداز سے قارئین کو سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔

ڈاکٹر عبد الشکور (فیصل آباد):

اس کتاب کو پڑھ کر یہ احساس پیدا ہوا کہ ہم اپنے شیخ کی صحیح قدر نہیں کر سکے۔
کہنہ مشق ادیب صحافی ریٹائرڈ ڈپٹی سیکرٹری سلسلہ چشتیہ کے مجاز جنا ب نبی احمد لودھی صاحب نے فرمایا:
یہ سحر انگیز کتاب ہے۔
پاکستان ٹائمز کے سب ایڈیٹر جناب صوفی اسلم صاحب نے یہ تاثرات دیے:
تو نے باتوں میں بکھیرے تھے جو نورس غنچے
میں انہیں شعر کی صورت میں سجا لایا ہوں
شاعری زیست میری زیست عبارت تجھ سے
تیری دولت تیرے قدموں میں اٹھا لایا ہوں

1 comments:

خادم نقشبندی نے لکھا ہے کہ

اسلام علیکم میں حافظ محمد ایوب انڈیا سے ھوںجب سے سفر نامہ پڑھا حضرت کا غلام بن چکا ھوں بس مرنے سے پہلے ایک بار حضرت کی زیارت کرنا چاھتا ھوں
پتہ نہیں یہ سعادت میرے نصیب میں ہے یا نہیں
6300939547
اگر موقع ہو تو ایک بار حضرت سے بات کرادو بھائی کوئی

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔