Friday, March 11, 2016

تصوف و سُلوک


یہ کتاب تیرہ ابواب پر مشتمل ہے۔ہر باب اپنی جگہ اہم ہے، لیکن بعض ابواب تمام سالکین کے لیے بہت ضروری ہیں، تاکہ وہ انہیں حرز جان بنا لیں۔یہ ابواب کئی بار پڑھنے کے قابل ہی نہیں ، بلکہ سمجھنے اور دل و دماغ میں اتار کر عمل کے سانچے میں ڈھالنے کے قابل ہیں۔اس کتاب کے بارے میں حضرت جی دامت برکاتہم ایک جگہ فرماتے ہیں:

"ہر سالک کے لیے ازحد ضروری ہے کہ وہ (اس کتاب میں بیان کردہ)آداب کا خیال رکھے ، کیونکہ وہ جتنا زیادہ آداب کا خیال رکھے گا اتنا زیادہ ترقی پائے گا۔اگر آداب کو پڑھ کر غفلت برتے گا تو باطنی نعمتوں سے بھی محروم ہوجائے گا۔"

ان واشگاف الفاظ میں تنبیہات کو بھی اگر غفلت کے کانوں سے سنا جائے اور پڑھا جائے تو ایسے مریض پر سوائے ترس کھانے کے اور کیا کیا جا سکتا ہے؟وہ روحانی بیمار ہے لیکن اسے اپنی بیماری کا احساس تک نہیں ہے۔

وائے   ناکامی    متاع   کارواں   جاتا   رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

ضرورت مرشد کا باب  اتنا متاثر کن ہے کہ اس باب کو علیحدہ ایک چھوٹے کتابچے کی شکل میں بھی چھپوایا گیا ہے۔واقعی !اس باب سے منکرینِ شیخ "ضرورت  شیخ" کے قائل ہوگئے ہیں۔اسباق تصوف کے باب میں سالکین کی ایک دیرینہ آرزو پوری ہوئی ہے کہ معمولات کی شرح و بسط سے بیان کیا گیا ہے۔

اب گیند ہمارے کورٹ میں ہے کہ ہم معمولات کرتے ہیں یا بہانے بناتے ہیں۔معمولاتِ شب و روز کے باب میں بڑے احتصار کے ساتھ شب و روز کا بہترین پروگرام ترتیب دے دیا ہے۔اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ فقط معمولات کو پڑھتے ہیں یا ساتھ عمل بھی کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہر ایک کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

معارف و حقائق  کا باب رنگا رنگ معارف سے بھرا پڑا ہے۔راقم الحروف نے کئی دفعہ خود دیکھا کہ حضرت جی دامت برکاتہم دورانِ مطالعہ جب کوئی انتہائی اہم بات دیکھتے تو لکھ لیتے تھے۔

 اس باب میں آپ کی ڈائریوں سے مختلف منتخب کردہ معارف لکھے گئے۔گویا یہ حضرت جی دامت برکاتہم کی زندگی بھر کا نچوڑ ہیں۔

اخلاق حمیدہ کا باب بہت احسن و عمدہ ہے۔اخلاق کے بغیر انسان آدمیت کے زمرۂ فضیلت سے گزر کر حیوانوں کے زمرے میں داخل ہوجاتا ہے۔یہ باب پڑھ کر ہر انسان اللہ رب العزت سے دعا تو کر سکتا ہے کہ اعلیٰ اخلاق نصیب فرما دیجیے۔اخلاق عالیہ کو آرزو بنا کر مانگنے سے آپ کو ضرور حصہ ملے گا۔اللہ تعالیٰ مال تو بن مانگے بھی عطا کر دیتے ہیں ، البتہ ہدایت مانگنی پڑتی ہے۔



ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے کوئی راہرو منزل ہی نہیں

ہمیں اخلاق محمدیﷺ بھی مانگتے رہنا چاہیے۔

یہ وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد

آخری باب سوالات و جوابات کا ہے۔اس میں خصوصیتِ شیخ واضح ہو رہی ہے کہ اختصار کے باوجود تسلی بخش جوابات ہیں۔موجودہ دور ذہنی انتشار کا دور ہے۔ہر دماغ میں ہزاروں شکوک و شہبات انگرائیاں لے رہے ہوتے ہیں۔اس باب میں ایسے خوبصورت جوابات دیے گئے ہیں کہ پڑھ کر تمام شبہات دور ہوجاتے ہیں۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ بیمار کی شفا سوال کرنے میں ہے۔

(مصنف عبد الرزاق، رقم:873)

راقم الحروف نے بھی بیعت ہونے سے پہلے تین گھنٹے  حضرت جی دامت برکاتہم سے سوالات کرکے اپنی شکوک و شبہات کے جال کو پارہ پارہ کیا تھا۔اب تو حضرت جی دامت برکاتہم کی صحبت  ایسی تسکین ہوتی ہے کہ کوئی سوال ذہن میں سر ہی نہیں اٹھاتا۔

سوال برائے سوال ،سوال برائے بحث اور سوال برائے ضد و عناد ، یہ شریف انسانوں کی خصلت نہیں ہے۔

دعا ہے کہ حضرت جی دامت برکاتہم کے وقت میں اللہ تعالیٰ زیادہ سے زیادہ برکت دے کہ ہم مہجوروں کی اصلاح کے لیے زیادہ سے زیادہ کتب لکھ سکیں۔

"تصوف و سلوک" کے متعلق زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آراء:

حضرت مولانا قاسم منصور مدظلہ:

"تصوف و سلوک" حقیقی اور جعلی تصوف کے  درمیان فرق کرتی ہے اور بندے کو اخلاص کی حقیقت سمجھاتی ہے۔اس لیے ہر درد مند مسلمان کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔

حضرت مولانا مفتی غلام رسول مدظلہ:

اس کے پڑھنے سے تصوف کی حقیقت سمجھ آتی ہے۔اس لیے ہر کسی کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

فقیر محمد اسلم نقشبندی مجددی:

موجودہ دور ذہنی انتشار کا دور ہے۔ہر دماغ میں ہزاروں شکوک و شبہات کے خیالات بھرے پڑے ہیں۔اس کتاب میں ایسے خوبصورت طریقے سے جواب دیے گئے ہیں کہ شکوک و شبہات کے جالے صاف ہو جاتے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔