Tuesday, March 15, 2016

با ادب با نصیب

الحمدللہ !اس کتاب کا نام ایسا دلکش ہے تو پھر مواد اور موضوعات کا کیا کہنا!!میرے جیسا نادان جو کہ ادب کی شاید "الف،بے" سے بھی واقف نہیں وہ اس کتاب کی شان و عظمت کو کیا بیان کر سکتا ہے؟حقیقتاً حضرت جی دامت برکاتہم نے یہ کتاب لکھ کر ہم پر احسانِ عظیم فرمایا ہے۔
جب اسلام ہے ہی ادب کا نام تو پھر آداب کو سیکھنا کتنا ضروری ہے ، مگر ہم لوگ اس انتہائی اہم چیز سے غافل ہیں اس کا احساس بھی بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔اس کتاب نے اس مقولہ "با ادب با نصیب" کے اثر کو دو چند کر دیا ہے۔اس کتاب کا پہلا باب ادب کی اہمیت سے متعلق ہے۔اس باب میں ادب کی اہمیت خوب اچھی طرح اجاگر کی گئی ہے۔نفس مضمون سے پہلے اس کی اہمیت کو بیان
"یاد رکھیں ! جو عمل بھی ادب سے خالی ہوگا وہ درحقیقت حسن و جمال سے خالی ہوگا۔حدیثِ قدسی ہے،ترجمہ:
"اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔"
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جس کو ادب کی توفیق نصیب ہوئی اسے سعادت ملی اور جو محروم ہوا اسے شقاوت ملی۔"
اس باب کے آخر میں"ادب اکابرین کی نظر میں" کے عنوان سے آداب کا ذکر ہے۔چند اقوال ملاحظہ ہوں،
حضرت علی نے فرمایا:
"ہر شے کی کوئی قیمت ہوتی ہے اور انسان کی قیمت اس کا علم و ادب ہے۔"
حضرت ابو عبداللہ بلخیؒ نے فرمایا:
"آدابِ نفس کا حاصل کرنا علم کے حاصل کرنے سے بھی زیادہ اہم ہے۔"
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی محبوب سبحانیؒ نے فرمایا:
"بے ادب خالق اور مخلوق دونوں کا معتوب ہوتا ہے۔"
حضرت شیخ علی بن عثمان ہجویریؒ "کشف المحجوب" میں لکھتے ہیں:
"تارک ادب اخلاق محمدیﷺ سے بہت دور ہوتا ہے۔"
اس کتاب میں بارگاہِِ الوہیت اور بارگاہ رسالت کے آداب کا زبردست انداز میں تذکرہ ہے۔اس انداز کو ملاحظہ فرمائیں:
"اگر محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ نے اس دنیا میں جلوہ افروز نہ ہونا ہوتا تو یہ جن و بشر ، شمس و قمر،شجر و حجر ، بحر و بر ، پھولوں کی مہک ، چڑیوں کی چہک، سبزے کی لہک، سمآ و سمک،رفعت و پستی، خوشحالی و بدبختی،زمین کی نرمی، سورج کی گرمی، دریا کی روانی، کواکب آسمانی، خزان و بہار، بیاباں و مرغزار، نباتات و جمادات، جواہر و معدنیات، جنگل کے درندے، ہوا کے پرندے، غرض کائنات کی کسی چیز کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔"  
گر ارض و سما  کی محفل میں  لولاک   لما    کا   شور   نہ   ہو
یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں یہ نور  نہ ہو  سیاروں میں
"آدابِ معلمین"کے باب میں علم اور اس کی ضروریات ، تقاضے،اثرات،مختلف اقوال و  واقعات سے ظاہر ہوتے ہیں۔
"راہ سلوک کے آداب"میں بڑے عجیب و غریب معارف ہیں۔اس کے علاوہ پیر بھائیوں اور طریقت کے آداب ہیں۔ایک باب کے اندر آداب السادات کا بڑا خوبصورت تذکرہ ہے۔آخری باب میں آداب معاشرت کا ذکر ہے جو بار بار پڑھنے کے قابل ہے۔چاہیے کہ ان آداب کا ہر وقت استحصار رہے۔
"با ادب بانصیب" کے متعلق زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آراء:

حضرت مولانا صاحبزادہ سیف اللہ مدظلہ:

اس سے انسان کے اندر ادب کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ادب کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے

حضرت مولانا مفتی غلام رسول مدظلہ:

"با ادب بانصیب" پڑھنے سے انسان ادب سیکھتا ہے اور انسان میں انسانیت پیدا ہوتی ہے۔اگر انسانیت پیدا ہوجائے تو واقعی انسان ، انسان بن جاتا ہے۔
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں  ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

حضرت مولانا قاسم منصور مدظلہ:

"با ادب با نصیب" کے پڑھنے سے پتہ چلا کہ پہلے تم ہم حیوانی زندگی گزار رہے تھے اب کچھ انسان بنے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔