شمائل و خصائل :
آپ کی جاذب نظر شخصیت کو ذکر اللہ کے انوارات نے گویا کوثر و تسنیم سے دهویا ہے.عشق الہی نے اس پر خوش نما غازہ کا عمل کیا، ہر کام میں اتباع سنت نے اس کو نکهار بخشا.چنانچہ آپ کی شخصیت پر پڑنے والی ہر نظر ایک درس حیات ثابت ہوتی ہے.آپ منشور کی طرح ایسی پہلودار شخصیت کے حامل ہیں کہ جس پہلو سے دیکها جائے اس میں قوس قزح کے مانند سب رنگ سمٹتے نظر آتے ہیں.
لباس:
آپ عموما سفید لباس زیب تن فرماتے ہیں. سنت کے مطابق گهٹنوں سے نیچے کرتہ، ٹخنوں سے اوپر شلوار، دائیں کندھے پر سفید رومال، سفید عمامہ ٹوپی کے ساتھ پہنتے ہیں. "الانسان باللباس"کے مصداق آپ لباس کی صفائی کا بہت اہتمام کرتے ہیں. آپ کا لباس گو سادہ کپڑے کا بنا ہوتا ہے، مگر انتہائی صاف شفاف نظر آتا ہے.آپ ہمیشہ سفید لباس کوہی ترجیح دیتے ہیں، کیوں کہ سفید لباس کے نفسیاتی روحانی اثرات قلب پر بهی پڑتے ہیں.
انداز گفتگو:
آپ کی آواز میں قدرتی طور پر حلاوت پائی جاتی ہے.بعض اوقات انسان آواز سنتے ہی بے ساختہ آپ سے محبت کرنے لگتا ہے.آپ نجی گفتگو دھیمی آواز میں کرتے ہیں. ناصحانہ اور مشفقانہ انداز میں بات کرتے ہیں. دوران گفتگو "تم لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق بات کرو"کو پیش نظر رکهتے ہیں. اردو زبان میں شستہ گفتگو فرماتے ہیں. جب اللہ رب العزت سے عشق و محبت کا بیان فرماتے ہیں تو بے ساختہ اس شعر کا مصداق بن جاتے ہیں: اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے عشق کے دردمند کا طرز کلام اور ہے.
انداز بیان:
قدرت نے آپ کو وہبی علوم کے ساتھ ساتھ دعوت و ارشاد کا ملکہ بهی عطا فرمایا ہے.آپ کا انداز بیان عموما موقع و محل کے مطابق ہوتا ہے.انسان شناسی اور موقع شناسی آپ کے خاص وصف ہیں، تاکہ موقع کے حساب سے بات ہوسکے. آپ کی زبان مبارک سے علوم و معارف چهن چهن کر آتے ہیں. ایسے لگتا ہے کہ مضامین کے ستارے آسمان سے اتارے گئے ہیں. بات چونکہ دل سے نکلتی ہے لہذا سیدھی دل میں اتر جاتی ہے.
باطن میں ابهر ، کر ضبط فغاں ، لے اپنی نظر سے کار زباں
دل جوش میں لا فریاد نہ کر ، تاثیر دکها تقریر نہ کر
ہر وقت موت کا استحضار:
حضرت جی دامت برکاتہم عالیہ فرماتے ہیں :جب بهی کبهی گهر سے سفر پر نکلتا ہوں تو اس طرح رخصت ہوتا ہوں کہ جیسے دوبارہ ملاقات نہ ہوگی،"فی امان اللہ"کہہ کر روانہ ہوتا ہوں. اس سے معلوم ہوتا ہے گویا ہر وقت موت کا استحضار رکهتے ہیں. جسے ہر وقت موت کا استحضار رہے پهر اس کی نصیحت ضرور وصیت کے رنگ میں ہی ہوگی.
ایک دفعہ کراچی روانگی کے وقت آپ نے لوگوں کو مخاطب کرکے"سورہ العصر"تلاوت فرمائی اور یہ فرمایا کہ ہمارے بزرگ ایسا ہی کرتے تهے.رخصت ہوتے وقت "سورہ العصر"کی تلاوت فرماتے اور پیغام دے جاتے کہ اس میں غور وفکر کرتے رہو.حضرت امام شافعی رح فرمایا کرتے تهے کہ اگر قرآن میں سورہ العصر کے علاوہ کچھ بهی نازل نہ ہوتا تو صرف یہی ہماری ہدایت کے لیے کافی تهی.
کالج میں بیان:
ایک دفعہ راقم الحروف کے کالج میں حضرت جی دامت برکاتہم عالیہ نے بڑا ہی مؤثر بیان کیا.فرمایا:مختلف مواقع پر لوگوں کو دیکھ کر ان کی ضرورت کے حساب سے اصلاحی بات کی جاتی ہے.کیا یہ بیان کسی نے ٹیپ کیا ہے؟ راقم الحروف نے عرض کیا:حضرت! فلاں فلاں نے آپ کے بیان ریکارڈ کیے ہیں اور لوگوں کو سنا رہے ہیں. اس پر راقم کو خوب ڈانٹ پڑی کہ تمہیں خود یہ کام کرنا چاہیے تها.اس سے اصلاح بهی ہوئی اور آئندہ کے لئے سبق بهی ملا کہ جو بات پوچهی جائے اس کاTo The Pointجواب دیا جائے.اگلی پچهلی باتیں ساتھ ملانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے.
حضرت جی کا ہر بیان موقع کی مناسبت سے ہوتا ہے.اگر آپ اعلی تعلیم یافتہ لوگوں سے خطاب فرما رہے ہوں تو انداز بیان کچھ اور ہوتا ہے.زیادہ الفاظ انگلش کے استعمال کرتے ہیں اور جدید تحقیقات کو بهی موضوع سخن بناتے ہیں. اگر عوام الناس کے سامنے بیان ہو تو پهر انداز مختلف ہوتا ہے.اصلاحی واقعات کے رنگ میں نصیحت کرتے ہیں، تاکہ عام فہم ہو اور ہر کسی کی سمجھ میں آسکے.اگر علماء کرام سے مخاطب ہوں تو قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ کثرت سے استعمال فرماتے ہیں. مختصر یہ کہ انداز بیان بهی دلکش اور شیریں ہے اور واقعات اور اشعار کا استعمال بهی موقع محل کے مطابق ہوتا ہے.ایسا لگتا ہے گویا کہ یہ شعر شاعر نے اسی موقع کےلئے کہا تها.ایک مرتبہ کراچی میں آپ نے الوداعی بیان کیا اور اس کے شروع میں یہ شعر پڑها تو مجمع تڑپ اٹها:
غنیمت سمجھ لو مل بیٹهنے کو
جدائی کی گهڑی سر پر کهڑی
دانشمندی:
رب ذوالجلال کی نعمتیں دن رات مخلوق پر موسلادهار بارش کی طرح برستی رہتی ہیں انکا احاطہ بڑا ہی دشوار ہے.ان نعمتوں میں سے ایک نعمت عظمی دانشمندی بهی ہے.اگر کسی انسان کو یہ مل جائے تو نہایت خوش بختی کی دلیل ہے.خالق ارض وسما کا ارشاد ہے:
ترجمہ: "جس کو دانشمندی اور دانائی مل جائے اسکو خیر کثیر مل گئی."(البقرہ:269 )
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ترجمہ: "مومن کی فراست سے ڈرو، پس وہ اللہ کے نور سے دیکهتا ہے."(ترمذی، رقم:3127)
اگر آپ کی دانشمندی پر لکها جائے تو کتاب زندگی کے کئی جزبن سکتے ہیں، تاہم نمونہ کے طور پر ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے:
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے ایک دوست کے ساتھ سفر کررہے تهے.وہ فرمانےلگے کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ شیخ کی کیا خصوصیت ہے؟ راقم الحروف نے عرض کیا کہ آپ ہی فرمائیں! فرمانے لگے:دانشمندی اور عقلمندی. مزیدعرض کیا:اگر دانشمندی کے ساتھ مضبوط نسبت بهی شامل ہوجائے تو پهر تو سونےپر سہاگہ والی بات ہوجاتی ہے.
حضرت مولانا گل رئیس صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ آزاد ریاستوں کے سفر کے دوران جگہ جگہ آپ کی دانش اور فہم کے واقعات نظر آتے ہیں. آپ نے سفر کے شروع میں ہی بتا دیا:جب بهی کوئی آپ لوگوں سے میرے متعلق معلومات لینے کےلئے سوال کرے تو یہی کہنا کہ ٹورسٹ ہیں، کیونکہ سارے سفر کے دوران کےجی بی کے لوگ پیچھے لگے رہے.جب بهی وہ سوال کرتے ہم یہی جواب دیتے ٹورسٹ ، ٹورسٹ ، ٹورسٹ جس کی وجہ سے انہیں ہمارے متعلق زیادہ کهوج کرید کرنے کا موقع نہ ملا.حضرت جی دامت برکاتہم کی دانشمندی کی داد دینی پڑتی ہے.انہوں نے ہمیں ایک لفظ سکها کر سب کو ناک آوٹ کردیا.
مہمان نوازی:
مہمان نوازی آپ کے اوصاف میں سے ایک امتیازی وصف ہے.آپ کے دسترخوان کی وسعت دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ آپ حاکم وقت ہیں. روسائے وقت اور عمائدین شہر آپ کی مہمان نوازی کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں. درج ذیل فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت آپ کے پیش نظر رہتاہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو شخص اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکهتاہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے."(ترمذی، رقم:1967)
حضرت جی دامت برکاتہم کسی بزرگ کا یہ قول بهی اکثر نقل فرماتے ہیں کہ مہمان کے لئے زمین، آسمان جتنا بڑا لقمہ بهی تیار کرکے اس کے منہ میں دے دیا جائے پهر بهی اس کا حق ادا نہیں ہوتا.راقم الحروف کا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ حضرت جی دامت برکاتہم مہمانوں کے آنے سے خوش ہوتے ہیں. مہمان کی خدمت اہل خانہ نے ذمہ لی ہوئی ہے.مہمانوں کا سلسلہ دن رات چلتا رہتا ہے.اس کے علاوہ آپ کے گهر کے بچوں عثمان، یاسر اور صاحبزادہ حبیب اللہ صاحب اور صاحبزادہ سیف اللہ صاحب مہمانوں کی اتنی خدمت کرتے ہیں کہ بعض اوقات شرم محسوس ہونے لگتی ہےکہ ہم مریدین تو خدمت کرنے اور اصلاح کروانے کےلئےآتے ہیں، مہمان بن کرخدمت کروانے تو نہیں آتے، مگر حضرت جی دامت برکاتہم نے اپنے بچوں کی تربیت اس طرح سے کی ہوئی ہے کہ خصوصی مہمانوں کی خدمت کرتے ہوئے تهکتے نہیں ہیں کسی اور کو خدمت کرنے کا موقع دیے بغیر خود خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں. اللہ تعالی انکی خدمت کے اس جذبے کو قبول فرمائے
خوش طبعی:
آپ کی طبیعت میں اگرچہ خشیت الہی کا غلبہ رہتا ہے، تاہم آپ حاضرین مجلس کی دل لگی کیلئے اخیانا کوئی ایسی بات فرما دیتے ہیں کہ محفل باغ و بہار بن جاتی ہے.کبهی اپنے بچپن کا کوئی خوشگوار واقعہ سناکر سب کو محظوظ کرتے ہیں، لیکن مزاح کی اس کیفیت میں بهی"لا اقول الا الحق"کے فرمان پر عمل پیرا ہوتے ہیں. آپ کو قہقہہ لگاتے ہوئے کبهی نہیں دیکها گیا. حضرت جابر رض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں، ترجمہ:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہنسنا صرف تبسم ہوتا تها."
اتباع سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ بهی صرف تبسم فرماتے ہیں، مگر اس خوش اسلوبی کے ساتھ کہ محفل کشت زعفران کا نمونہ پیش کرتی ہے.
ایک دفعہ جهنگ سے تعلق رکهنے والے عشرت صاحب سے راقم الحروف کےگهر میں پوچها کہ لفظ عشرت مذکر ہے یا مونث ہے؟ عشرت صاحب نےعاجزی کے لئے عرض کیا کہ حضرت! ہم تو مونث ہی ہیں، کیوں کہ پنجابی زبان میں شاعر عاجزی کی خاطر اپنے لئے مونث کا صیغہ استعمال کرتے ہیں.
ووکانی ہاں تیڈے نام پچهوں نئ تے کون کمینی نوں جانداں ہائی
میڈےگل پٹہ تیڈے نام والا تے تیڈے نام کوں سنجداں ہائی
راقم الحروف جن دنوں آپ کے کچھ کتابچے چهپوا رہا تهاان دنوں آپ اسلام آباد ٹھہرے ہوئے تهے.ہر روز کام کی رفتار بتانے
اور صحبت سے فیضیاب ہونے آپ کی مجلس میں جانا ہوتا تها.
دو تین دن مسلسل آپ یہی سوال اس عاجز سے کرتے رہے:کیا باہر بارش ہورہی ہے؟ پہلے تو کچھ سمجھ نہ آیا کہ حضرت جی دامت برکاتہم نے یہ سوال کیوں پوچها ہے، لیکن غور کیا تو پتہ چلا کہ راقم الحروف کچھ اس ہیئت سے اندر داخل ہوتا تها کہ گویا باہر بارش ہورہی ہے اور عاجز بهیگتا ہوا اندر داخل ہورہا ہے.
اتباع سنت:
آپ پر اتباع سنت کا اس قدر غلبہ رہتا ہے کہ ہر چهوٹے بڑے عمل میں سنت کو پیش نظر رکهتے ہیں. اس بے ساختگی کے ساتھ سنت پر عمل پیرا ہوتے ہیں کہ وہ طبیعت کا جز لاینفک نظر آتی ہے.
یوں معلوم ہوتا ہے کہ"مکروہات شرعیہ"آپ کیلئے"مکروہات طبعیہ"بن گئی ہیں. آپ سنت کو ظاہری سراپا تک ہی محدود نہیں رکهتے، بلکہ معاملات و معاشرت میں بهی اسکا عملی نمونہ پیش فرماتے ہیں.
وہی سمجها جائے گا شیدائے جمال مصطفی
جس کا حال حال مصطفی جس کاقال قال مصطفی
آپ کو سنت نبوی سے محبت ہی نہیں بلکہ عشق ہے.ایک اتباع سنت سے محبت ہوتی ہے اور ایک اداء مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہوتی ہے. آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اداوں سے اتنی محبت ہے کہ انکی بهی اتباع فرماتے ہیں. سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا عشق اور والہانہ پن آپ کی گفتار و کردار سے بهی عیاں ہوتاہے.راقم الحروف کے نام ایک خط میں لکها:"اتباع سنت ہر معاملے میں اپنے اوپر لازم رکهیں، جس طرح بیوی میک اپ کرکے خاوند کی نظر میں جاذب بننے کی کوشش کرتی ہے اسی طرح انسان بهی ہر معاملے میں سنت پر عمل کرکے اپنے پروردگار کی نظر میں جاذب بن سکتا ہے."
خوشنما لگتا ہے یہ غازہ تیرے رخسار پر
سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور جدید سائنس پر باقاعدہ آپ کا ایک کتابچہ ہے، جو کہ سنت کی اہمیت کو واضح کرتا ہے.
ایک دفعہ چکوال میں آپ نے بیان فرمایا اور روحانی سلاسل پر روشنی ڈالی اور فرمایا:"دوسرے سلاسل میں محنت اور مجاہدہ سے انسان کی تکمیل ہوتی ہے.ہماری محنت و مجاہدہ یہ ہے کہ ہر معاملہ میں سنت پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے.ہمارے سلسلے میں تکمیل اتباع سنت سے ہوتی ہے."
ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ ایک انسان ماں باپ کی پیروی میں بهی نیک عمل کرتا ہے اور ایک اتباع سنت کی وجہ سے نیک عمل کرتا ہے اور اپنے علم، اپنی سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے بهی کوئی نہ کوئی طریقہ سنت کا اختیار کرلیتا ہے.
یا رب تیرے محبوب کی شباہت لے کر آیا ہوں
حقیقت اس کو تو کر دے میں صورت لے کر آیا ہوں
تقوی و طہارت:
آپ کی عادت شریقہ ہے کہ مستحبات کو بهی گوہر پارے سمجھ کر اپنے جسم مبارک پر مزین فرما لیتے ہیں. ہر عمل میں عزیمت کو اپنانا آپ کا شیوہ ہے.بازار کی تیار شدہ اشیا یا کسی بے نمازی کے ہاتھ کا بنا ہوا کهانا کهانے سے حتی الوسع اجتناب فرماتے ہیں.
آپ اپنے شیخ حضرت پیر غلام حبیب رح کا یہ قول نقل فرماتے ہیں:"آج کل صوفیوں نے تقوی کو محض کهانے پینے تک محدود کردیا ہے، حالانکہ تقوی کے معنی ہیں ہر اس چیز کو ترک کردینا جس کے اختیار کرنے سے تعلق باللہ میں فرق آئے."
بعض کاملین سے منقول ہے کہ متقی وہ ہے جس کے قلب کی تمناؤں کو طشتری میں ڈالیں اور سر بازار پهرائیں تو شرمندگی نہ ہو.
آپ فرماتے ہیں تقوی ولایت کے حصول کیلئے شرط ہے.
"اس کے ولی نہیں ہوتے مگر متقی لوگ"(الانفال:34)
آپ طہارت کا بہت زیادہ خیال رکهتے ہیں. استنجے کیلئے مٹی کے ڈهیلے کو ترجیح دیتے ہیں. اگر ڈهیلے نہ ملیں تو ٹائلٹ پیپر استعمال کرتے ہیں. پهر پانی بہا دیتے ہیں.
آپ سے حضرت لاہوری رح کا واقعہ سنا کہ حضرت لاہوری رح اپنی عمر کے آخری دنوں میں خود کپڑے دهونے سے قاصر ہوگئے تو دهوبی سے کپڑے دهلواتے تهے.جب کپڑے خشک ہوکر آتے تو ان کو دوبارہ پانی میں ڈال کر نچوڑتے اور فرماتے:دهوبی کپڑے صاف تو کرتا ہے پاک نہیں کرتا.
حضرت جی دامت برکاتہم عالیہ فرماتے ہیں:جو اپنے ظاہر کی چیز کپڑے اور جسم پاک نہیں رکهتا اس کا دل کیسے صاف ہوسکتا ہے؟ آپ نے اپنے شیخ کا یہ فرمان نقل فرمایا:
"جو سالک جسم کی طہارت کا خیال نہیں رکهتا وہ قلب کی طہارت کیسے حاصل کر سکتا ہے؟ ایسے شخص کا دل تو بت خانہ، بلکہ گند خانہ بن جاتا ہے."
یاد رکهیں! جس دل میں غیر اللہ کی محبت ہو وہ نجس ہے:
"مشرک لوگ ناپاک ہیں"(التوبہ : 28)
حضرت جی دامت برکاتہم عالیہ نظر اور دل کو پاک رکهنے پر بہت زور دیتے ہیں اور خود بهی اس کی زندہ مثال ہیں. کیونکہ نظر اور دل کی پاکی سے ہی خیالات پاک ہوتے ہیں. خیالات کی پاکی انسان کو نیک اعمال کی رغبت دلاتی ہے.
یہ نظر کی پاکیزگی ہی کا کمال ہے کہ جس پر پڑ جاتی ہے اس کے دل کی دنیا کو بدل کر رکھ دیتی ہے.
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
آپ کے دل کی پاکیزگی کے اثرات آپ کے بیانات سے ظاہر ہوتے ہیں، جو لمحوں میں سینکڑوں لوگوں کے قلوب میں اترتے چلے جاتے ہیں.
بقول حضرت جی دامت برکاتہم عالیہ: "قلب اگر پاک ہوگا تو عمل بهی نیک ہوگا اور قلب اگر گندہ ہوگا تو عمل بهی بد ہوگا.قلب کی پاکیزگی کے اعمال پر بڑے اثرات ہوتے ہیں. جیسا انسان کا باطن ہوتا ہے ویسی ہی اسکی سوچ ہوتی ہے اور جیسی اس کی سوچ ہوتی ہےویسا ہی اسکا عمل ہوتا ہے.قلب کی پاکیزگی اور اعمال صالحہ، دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں. یہ قلب و نظر کی پاکیزگی تبهی حاصل ہوسکتی ہے جب اللہ تعالی سے محبت ہوجائے.یہ محبت تبهی مل سکتی ہے جب محبت کرنے والوں کی صحبت سے فائدہ اٹهایا جائے، جن کے سینے عشق الہی کی تپش سے دہک رہے ہوتے ہیں، جن کی ایک ایک نظر مخاطب کا دل الٹ پلٹ کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے."
ان سے ملنے کی ہے یہی اک راہ
کہ ملنے والوں سے راہ پیدا کر
غرض تقوی و طہارت حضرت جی دامت برکاتہم عالیہ کی زندگی میں بنیادی حیثیت رکهتے ہیں. اللہ تعالی بهی تو متقیوں کو دوستی کی نوید سنارہے ہیں. اس سے بڑھ کر اور خوش نصیبی کیا ہوگی کہ ولیوں اور متقیوں کو اللہ تعالی کا دوست کہا گیا ہے
"اللہ تعالی متقیوں کا دوست ہے."(الجاثیہ :19)
نیک عمل کرنا اتنی بڑی بات نہیں ہوتی، بلکہ گناہ سے بچنا اور تقوی کی زندگی گزارنا بڑی بات ہوتی ہے، جو محض اللہ تعالی کے فضل کا ہی نتیجہ ہے.
آداب معاشرت:
آپ کی زندگی آداب معاشرت کا جیتا جاگتا نمونہ ہے.آپ اپنے شیخ حضرت پیر غلام حبیب رح کا فرمان نقل کرتے ہیں:
"حقوق اللہ اور حقوق العباد کے درمیان ایک میزان ہے، جس نے اس کو درست رکها وہ محبوب حقیقی سے واصل ہوا اور جس نے کوتاہی کی وہ محروم و مہجور ہوا."
گهر کے اندر ہوں یا باہر، اہل خانہ کے ساتھ ہوں یا روحانی محافل میں، اللہ کے دوستوں کی مجلس میں ہوں یا عام دنیا دار طبقے کے ساتھ ہوں، ہر جگہ آپ آداب کا خصوصی لحاظ رکهتے ہیں. بول چال میں، کردار وگفتار میں، اٹهنے بیٹهنے میں، دوسروں سے برتاؤ کرنے میں، خوش مزاجی میں، برہمی میں، ہر جگہ ، ہر وقت آداب اور سنت طریقے کا لحاظ رکهتے ہیں.
حضرت جی دامت برکاتہم عالیہ نے آداب معاشرت پر"باادب با نصیب"ایک کتاب لکهی ہے، جس میں تمام اہم آداب زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے.آداب سیکھنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہے، لیکن اس سے بڑھ کر اگر کوئی آداب سیکھنے کا متوالا ہو تو چند دن حضرت جی دامت برکاتہم عالیہ کے ساتھ نشست وبرخاست رکهے خود کار طریقہ سے آداب کو اپناتا چلا جائے گا.آداب آپ کی زندگی کا ایسا وصف ہیں کہ دیکهنے والا محسوس ہی نہیں کرسکتا آپ آداب بجا لاتے ہیں، بلکہ آپ کی عادت شریفہ ہی ایسی سنت والی ہے.ایسے ایسے آپ کے طور اطوار ہیں کہ آداب اور سنت طریقے آپ کی طبیعت میں رچ بس گئے ہیں۔
محافظتِ وضو
حضور اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
لَا یُخَافِظُ عَلیَ الْوُضُوْءِاِلَّامُؤْمِن
"وضو کی حفاظت تو مومن ہی کر سکتا ہے"
(صحیح ابن حبان،رقم:1037 ، جامع العلوم والحکم :1/215)
محافظت وضو پر اللہ تعالٰی نے آپ کو ایسا ملکہ عطافرمایا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔کئی دفعہ دیکھا گیا کہ آپ کا وضو گھنٹوں برقرار رہتا ہے۔آپ کی عادت شریفہ ہے کہ آپ شروع ہی سے وضو کی حفاظت فرماتے ہیں۔
آپ حضور اکرمﷺکا نام بھی بے وضو نہیں لیتے۔راقم الحروف نے ایک دفعہ عرض کیا کہ وضو رکھنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔حضرت جی دامت برکاتہم نے اس کے ضمن میں چند حکمت آمیز باتیں ارشاد فرمائیں ، جن کا راقم کو بہت زیادہ فائدہ ہوا۔
ارشاد فرمایا:
ہمیشہ ان چیزوں سے پرہیز کریں جو آپ کو گیس پیدا کرتی ہیں۔
جب قضاء حاجت کے لیے بیٹھیں تو اچھی طرح فارغ ہوں۔
جب کھانا کھائیں تو بھوک سے ذرا کم کھائیں۔پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے ، ایک حصہ پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس آنے کے لیے بھی رہنے دیں۔
سب سے اہم یہ بات کہ وضو کی محافظت کے لیے اللہ تعالٰی سے بار بار التجائیں کرتے رہیں۔
باوضو رہنا اولیا کی نشانی ہے۔اس سے بھی وضو جیسی نعمت کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔باوضو آدمی کو بے شمار روحانی فوائد کے حصول کے ساتھ ساتھ یہ آسانی بھی ہو جاتی ہے کہ اس کو وسوسے اور خیالات کم آتے ہیں۔
کیفیتِ دعا
آپ اکثر اپنے بیانات میں دعا کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے احادیث پیش فرماتے ہیں:
اَلدُّعَاءُ ھُوَالْعِبَادَۃُ(ابوداود ، رقم :1481،باب الدعا)
دعا ایک عبادت ہے۔
اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعبادَۃُ (ترمذی ، رقم :2271 ، باب ماجاء فی فضل الدعاء)
دعا عبادت کا مغز ہے۔
حضرت جی دامت برکاتہم دعا مانگنے پر بہت زور دیتے ہیں۔فرماتے ہیں:دعا کرنے والے تو سبھی ہوتے ہیں ، دعا مانگنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔اصل چیز ہی دل کی گہرائیوں سے مانگنا ہے۔مانگنے والے کا رُواں رُواں جب پکار پکار کر مانگ رہا ہوتا ہےتودینے والا کیوں نہیں ترس کھائے گا، کیوں نہیں دے گا؟رب تعالٰی کے دینے میں کمی نہیں ہوتی ، بلکہ ہمارے مانگنے میں کمی ہوتی ہے۔ہم دعائیں کرلیتے ہیں ، مانگتے نہیں ہیں۔جب مانگنے کی اصل حقیقت جان لیں گے تو حقیقتِ حال عرض کرنے میں مشکل نہیں رہے گی۔جب بھی مانگیں دل کھول کے مانگیں ، رب کریم مانگنے والوں سے خوش ہوتے ہیں۔آپ اپنے شیخ حضرت پیر غلام حبیبؒ کے اقوال لکھتے ہیں:
"دعا زبان کا نہیں ، بلکہ دل کا عمل ہے"
دعائیں کروائی نہیں جاتیں ، بلکہ دعائیں لی جاتی ہیں۔محض دعائیں کروانے میں اور خدمت کرکے دعائیں لینے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔دورانِ بیان حضرت جی دامت برکاتہم کی عاجزی قابلِ دید ہوتی ہے۔فیضانِ سلسلہ عالیہ کا ایسا ورود ہوتا ہے کہ مجلس میں موجود ہر شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
بیانات کے بعد جب آپ لائٹیں بند کروا کے دعا فرماتے ہیں تو عجیب و غریب مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں۔لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگتے ہیں۔شاید ہی کوئی آنکھ ایسی بچتی ہو جو اشک بار نہ ہوتی ہو۔ان لمحاتِ قبولیت میں جتنا گہرائی میں ڈوب کر مانگیں اتنا ہی دل پر سکون ہوجاتا ہے اور دعا مانگنے کا حقیقی لطف میسر آ جاتا ہے۔
مجھے اپنی پستی کی شرم ہے تیری رفعتوں کا خیال ہے
مگر اپنے دل کا میں کیا کروں اسے پھر بھی شوق وصال ہے
خصوصاً رمضان المبارک کی راتوں میں خصوصی بیانات اور ذکر اذکار کے بعد بڑی رقت انگیز دعائیں کرواتے ہیں۔ایسے پر اثر الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ایسی بھرپور مثالیں دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے آپ کی باطنی توجہ سے پتھر دل موم ہوجاتے ہیں اور ان کے آنسو نکل پڑتے ہیں۔
حاضرین کو رلا دینا کوئی کمال کی بات نہیں ہوتی ، نہ ہی اس نیت سے ایسا کوئی طریقہ اپنایا جاتا ہے، بلکہ دعا مانگنے کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے گویا زبان سے الفاظ نہیں نکل رہے بلکہ دل بول رہا ہے اور دل سراپا سوال بن کے مانگ رہا ہے۔اس سے سننے والوں پر بڑے حیرت انگیز اثرات مرتب ہوتے ہیں۔سننے والے کود ہی بے اختیار اس دعا کی تاثیر سے قلوب منور کرتے چلے جاتے ہیں۔
تیری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
میری دعا ہے کہ تیری آرزو بدل جائے
میری دعا ہے کہ تیری آرزو بدل جائے
یاداشت
حضرت مولانا مصطفٰی کمال مدظلہ حضرت جی کی یاداشت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حضرت جی دامت برکاتہم کے ساتھ لاکھوں سالکین منسلک ہیں۔کسی سے کئی ماہ پہلے بات کی ہوتی ہے یا کوئی مشورہ دیا ہوتا ہے ، جہاں تک پہلے بات کی ہوگی اگلی دفعہ اسی سے آگے بات کریں گے۔اتنا زبردست حافظہ ہے کہ انسان کو حیرانی ہوتی ہے۔
کام کی تیاری
کام کی پوری تیاری کرنے کی سنت پوری کرتے ہیں۔پھر اللہ پر توکل کرتے ہیں اور کام کو اللہ کے سپرد کردیتے ہیں۔سفر کی تیاری کا بھی پورا خیال رکھتے ہیں، مگر پھر جو بھی واقعات رونما ہوں تو تذکرہ کے طور پر بھی کوئی شکوہ شکایت نہیں کرتے۔
کام کرنے کا انداز:
فرمایا:جس کام کو شروع کرتا ہوں تو اس کی گہرائی میں جاتا ہوں۔ابتدا کرتے ہیں تو اختتام تک پوری توجہ سے لکھتے رہتے ہیں، پھر اور کام کی طرف توجہ نہیں دیتے۔اس کام سے فارغ ہو کر دوسرے کام کی طرف پوری توجہ دیتے ہیں۔
خط کا واقعہ:
ایک دفعہ حضرت جی دامت برکاتہم خط پڑھ رہے تھے۔راقم الحروف نے کوئی مشورہ کرنا چاہا ، مگر حضرت نے توجہ نہیں دی ، جب خط کو پورا پڑھ لیا تو توجہ دی اور فرمایا:اب بات کریں ! کیا کہہ رہے تھے؟
تبصرہ بازی سے اجتناب
موسم پر تبصرہ بازی:
عموماً دیکھا گیا ہے کہ جب لوگوں کے پاس کوئی کرنے کی بات نہ ہوتو موسم پر تبصرہ بازی شروع کر دیتے ہیں کہ آج گرمی بہت ہے، سردی بہت ہے۔حضرت جی کی عادت ہے کہ کوئی تبصرہ نہیں کرتے اور ہر حال میں راضی برضا رہتے ہیں، کیونکہ تمام موسم اللہ تعالٰی کے حکم سے ہی ادلتے بدلتے رہتے ہیں اور تمام دنوں کے اندر واقعات بھی اللہ کے حکم ہی سے بدلتے رہتے ہیں اور تمام دنوں کے اندر واقعات میں اللہ کے حکم ہی سے بدلتے رہتے ہیں۔
تِلْکَ الایامُ نداو لھا بین النّاسِ(ال عمران : 140)
"یہ دن ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔"
حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ بازی:
حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ بازی کر کے بحث و مباحثہ کرنا اور وقت ضائع کرنا آپ کا شیوہ نہیں ہے۔دعا ضرور کرتے ہیں۔جہاں تک ہو سکے اصلاح کی کوشش بھی کرتے ہیں، مگرحالاتِ حاضرہ پر بطور "تبصرہ بازی" کرکے اپنا وقت ضائع نہیں کرتے ، بلکہ دین کی خدمت کے لیے اور کلمے کو گھر گھر اور در در تک پہنچانے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔